گذشتہ چند دنوں کے دوران پیش آنے والے واقعات نے پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی چہ مگوئیوں کو مزید ہوا دی ہے۔ جن میں سے ایک واقعہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور صوبائی کابینہ کو پشاور کور کمانڈر ہاؤس میں مدعو کیا جانا تھا۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ عمران خان اپریل کے مہینے میں رہا ہو جائیں گے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب نو مئی کے بعد گرفتار ہونے والے چند پارٹی کارکنان بھی رہا ہوئے اور دوسری جانب چند پارٹی رہنما دوبارہ عوامی سطح پر سامنے آئے۔
ایسے میں وزیر اعلی خیبرپختونخوا کی جانب سے پشاور میں کور کمانڈر سے ملاقات کو مبینہ طور پر مفاہمت کے عمل کا حصہ سمجھا گیا اور پارٹی کے کارکنان کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے گئے کہ علی امین گنڈا پور کس مقصد کے تحت پشاور کور کمانڈر سے کابینہ سمیت ملاقات کے لیے گئے؟
ان سوالات اور تنقید کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پانچ اپریل کو ایک وضاحت جاری کی گئی جس میں اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ الیون کور میں کابینہ ممبران کو افطار دعوت دی گئی جسے اسلامی روایات کے مطابق قبول کیا اور افطاری کے بعد الیون کور میں کابینہ ممبران کو صوبہ میں موجودہ سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے واضح کیا کہ کورکمانڈر ہاؤس میں کابینہ کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا اور خیبر پختونخوا میں موجودہ سکیورٹی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج سے فعال رابطوں اور تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔
بیرسٹر سیف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اپنے عوام کے جان ومال کے تحفظ کی خاطر اگر ہم اپنی فوج کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو کیا انڈیا کی فوج کے ساتھ بیٹھیں گے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق چند لوگ جھوٹی افواہیں پھیلا کر صوبے میں اپنی سیاست دوبارہ زندہ کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔
تاہم خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اس وضاحت کے باوجود مفاہمت کی چہ مگویوں نے دم نہیں توڑا۔
ایسے میں سنیچر کے دن بانی تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے صحافیوں سے گفتگو ہوئی تو اس معاملے پر ابہام دور ہونے کے بجائے کچھ اور بڑھ گیا۔
عمران خان نے کیا کہا؟
عمران خان نے اس گفتگو میں ایک جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا نام لے کر ان پر الزامات لگائے تو دوسری جانب بات چیت کا دروازہ کھلا ہونے کا عندیہ بھی دیا۔
بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آرمی چیف نے مجھے توڑنے کے لیے توشہ خانہ ریفرنس میں بشری بی بی کو سزا دلوائی۔‘
بانی تحریک انصاف کے ایکس اکاوئنٹ پر جاری اس بیان میں عمران خان کی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ساری قوم کو پتہ ہے کہ جنرل عاصم منیر ملک چلا رہا ہے۔‘
عمران خان نے الزام عائد کیا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور نواز شریف کے درمیان لندن پلان ہوا جس کے تحت ججوں کو بھی ساتھ ملایا گیا اور آئی ایس آئی نے ججوں کی تقرریاں کروائیں۔
بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو:
“ساری قوم کو پتہ ہے کہ جنرل عاصم منیر ملک چلا رہا ہے۔
جنرل عاصم منیر نے مجھے توڑنے کے لیے توشہ خانہ ریفرنس میں بشری بی بی کو سزا دلوائی-
مجھے اور میری بیوی کو کچھ ہوتا ہے تو جنرل عاصم منیر ذمہ دار ہوں گے۔
لندن…— PTI (@PTIofficial) April 6, 2024
عمران خان کے مطابق انھوں نے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری سے پہلے صدر عارف علوی کے ذریعے ان کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’ہم تمہارے مخالف نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے عارف علوی کے ذریعے جنرل عاصم منیر کو ٹیلی فون کروایا تھا کہ مجھے اسکے لندن پلان کے بارے میں معلوم ہے۔ علی زیدی کے ذریعے بھی پیغام دیا تھا کہ نیوٹرل رہیں اور ملک کو چلنے دیں، ہمیں کہا گیا کہ فکر نہ کرو، نیوٹرل رہیں گے۔‘
تاہم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ حکومت گرانے کے باوجود دو مرتبہ جنرل باجوہ سے ملاقات کر سکتا ہوں تو کسی سے بھی ملاقات کر سکتا ہوں کیونکہ اس وقت میری ذات کا مسئلہ نہیں پاکستان کا ایشو ہے، مجھے قائل کر لیں۔
عمران خان کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف سے منسلک چند افراد کی رائے یہ تھی کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے معاملے پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہنے والے مرزا شہزاد اکبر نے ایکس پر لکھا کہ عمران خان نے تو دو ٹوک الفاظ میں اپنی لائن واضح کر دی ہے اب بہتر ہو گا کہ تمام حکیم سکون کریں اور انصافین اپنا حدف پہچان لیں۔
عمران خان نے تو دو ٹوک الفاظ میں اپنی لائن واضح کر دی ہے اب بہتر ہو گا کہ تمام حکیم سکون کریں اور انصافین اپنا حدف پہچان لیں
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) April 6, 2024
اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میں مفاہمت کی چہ مگویوں میں کتنی صداقت ہے؟
بی بی سی نے تحریک انصاف کے ترجمان سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان چہ مگویوں میں کتنی صداقت ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہماری کوئی لڑائی نہیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ جیل جانے سے پہلے خان صاحب نے ایک ٹیم بنائی تھی کہ ہم سب سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں اسٹیبلشمنٹ کا بھی نام تھا، اختلاف تھا تو انفرادی لوگوں کے ساتھ تھا، یہ وہی پوزیشن ہے۔
لیکن کیا اس وقت کسی قسم کی کوئی بات چیت چل رہی ہے یا کوئی رابطہ پارٹی سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کیا گیا؟
رؤف حسن نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے عمران خان پر کیسز بنے اور انھیں چلایا جا رہا ہے، اس سے پتہ نہیں چلتا ہے کہ کچھ ہے۔
تاہم تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے تجزیہ کار ایاز امیر نے اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی کے رابطوں کے معاملے پر کہا کہ ’پاکستان کا سیاسی سٹرکچر ایسا بن چکا ہے کہ آپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتے، یہ بہت مضبوط پولیٹیکل پلئیر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا استحقاق ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ دراصل عمران خان کی پارٹی جس بحران کا شکار ہے اس کا منبع عمران خان خود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ایک وقت میں دونوں سایئڈ کو تھپکی دیتے ہیں۔
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک جانب سپہ سالار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کور کمانڈر پشاور میں افطار ڈنر میں جاتے ہیں۔
’عمران خان کس طرح مخالفت سے ہٹ کر سیاسی نظام کو چلنے دیں گے‘
صحافی اعزاز سید نے بی بی سی کے نامہ نگار عبید ملک سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں تبصرہ کیا کہ ’بانی پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی جانب سے آرمی چیف پر تنقید تو ایک جانب مگر اس ساری صورت حال کے آغاز سے اُن کا موقف یہی ہے کہ وہ آرمی چیف سے خود بات کرنا چاہتے ہیں اور انھیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ فوج کے خلاف نہیں ہیں۔‘
اُنھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کی رہائی سے متعلق بھی بات چل رہی ہے اور آنے والے ایک دو ماہ کے دوران رہائی کا امکان بھی ہے، لیکن اگر عمران خان نے رہائی کے بعد بدستور فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور ’اُن‘ کی ریڈ لائن کراس کی تو ایسی صورتحال میں ہمیں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاستدانوں کو غیر فطری انجام سے دوچار کیا جاتا ہے۔‘
اعزاز سید کا کہنا ہے کہ ’اس وقت حکومت کی بھی کوشش ہے کہ حالات معمول پر آجائیں، اور جو مخالفت کی کہیں سے آواز اُٹھ رہی ہے وہ بھی خاموش ہو جائیں۔ اس وقت مسئلہ بانی پاکستان تحریکِ انصاف کا ہے کہ وہ کسی طرح سے مخالفت کی بات سے ہٹ کر سیاسی نظام کو چلنے دیں، لیکن اس سب میں عمران خان اگر بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ آرمی چیف سے۔‘
تاہم سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی کی جانب سے گزشتہ روز سامنے آنے والا وہ بیان کے جس میں انھوں نے آرمی چیف کا نام لے کر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے کے بعد یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے کہ ایک جانب تو فوج کے ساتھ مفاہمت کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور دوسری جانب عمران خان کا آرمی چیف پر تنقید کرنا معاملہ سمجھ سے باہر ہے۔‘
مگر نصرت جاوید اعزاز سید کی اس بات سے اس انداز میں اتفاق کرتے ہیں کہ ’گزشتہ روز کے اس سخت بیان میں ایک پیغام آرمی چیف کے لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ناراض کیوں ہیں آئیں بیٹھیں بات تو کریں، مگر ایسے میں اگر اسٹیبلیشمنٹ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بات کرنے پر آمادگی ظاہر کرتی ہے تو اسے یوں بھی لیا جائے گا کہ انھوں نے دباؤ کی وجہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘