نیوزی لینڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے باعث پیدا ہونے والی نقل مکانی کی ’غیر مستحکم‘ صورتحال کے باعث ورک ویزا کی پالیسی میں سختی کر دی گئی ہے۔
نئی ورک ویزا پالیسی کے تحت کم ہنر مند افراد کو اب ویزا حصول کے لیے انگریزی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوگا اور وہ ملک میں تین سال تک رہ سکیں گے جبکہ اس سے قبل یہ مدت پانچ سال تک تھی۔
نیوزی لینڈ کی امیگریشن وزیر ایریکا سٹینفورڈ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے امیگریشن قوانین اور پالیسی کو درست کرنا اس حکومت کے معیشت کے تعمیر نو کے منصوبے کے لیے اہم ہے۔‘
گذشتہ برس تقریباً ریکارڈ ایک لاکھ 73 ہزار افراد نے نیوزی لینڈ ہجرت کی تھی۔
نئے اور سخت قوانین کے تحت زیادہ تر ورک ویزا کے درخواست دہندگان کو اب ہنر، مہارت اور کام کے تجربے کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ نئی پالیسی کے تحت آجر اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے کہ تارکین وطن کو ملازمت کی پیشکش کرنے سے پہلے مطلوبہ شرائط کو پورا کیا جائے۔
نیوزی لینڈ حکام نے ویلڈر، پلمبر اور مکینک جیسے 11 پیشوں کو اس فہرست میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو نیوزی لینڈ میں فاسٹ ٹریک رہائش اختیار کرنے کے لیے اہل ہوں گے۔
وزیر امیگرین ایریکا سٹینفورڈ نے کہا کہ یہ قوانین ’ایک زیادہ جامع ورک پرمٹ پروگرام کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ایک بہتر امیگریشن سسٹم بنایا جا سکے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ مزید سخت ویزا قوانین تارکین وطن کے استحصال کو روکنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی آبادی 53 لاکھ ہے اور اسے 2022 کے آخر سے تارکین وطن کی نقل مکانی میں اضافے کا سامنا ہے۔
وزیر امیگریشن ایریکا سٹینفورڈ کا کہنا ہے کہ ’نیوزی لینڈ کی حکومت ثانوی تعلیم کے شعبے میں اساتذہ جیسے انتہائی ہنر مند تارکین وطن کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کیونکہ اس شعبے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نیوزی لینڈ کے باشندوں کو ان شعبوں میں ملازمتوں کے لیے ترجیح دی جائے جہاں ہنر اور مہارت کی کوئی کمی نہ ہو۔‘
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ ملک میں نقل مکانی کی بلند شرح ’بالکل مستحکم محسوس نہیں ہوتی۔‘
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم اور قدامت پسند نیشنل پارٹی کے سربراہ لکسن نے دسمبر میں ریڈیو نیوزی لینڈ کو بتایا تھا کہ ’نیوزی لینڈ کا امیگریشن سسٹم ایک ایسے وقت میں بند کر دیا گیا تھا جب آجر (کووڈ کے دوران) مزدورں یا کام کرنے والوں کی تلاش کر رہے تھے۔۔۔ اور پھر لیبر کے بہاؤ کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی معیشت سست ہونے لگی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک ایسا نظام وراثت میں ملا، جو مکمل طور پر تباہ ہے۔‘
کچھ پالیسی سازوں نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں نئے آنے والوں سے مکانات کے کرایوں اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پیر کو نیوزی لینڈ کے ایمپلائرز اینڈ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے خدشات کا اظہار کیا کہ نئے ویزا قوانین کے ’غیر ارادی‘ نتائج ہو سکتے ہیں۔
ایسوسی ایشن کے ایڈووکیسی کے سربراہ ایلن میکڈونلڈ نے کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے حامی ہیں کہ ہم صحیح مزدوروں یا افراد کو ملک میں لا رہے ہیں اور یہ کہ ان کا استحصال نہ کیا جائے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم توازن کو قائم رکھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خواہش مند افراد کے لیے نیوزی لینڈ میں آنا مشکل بنانے کا مطلب ہے کہ وہ کہیں اور جائیں گے، جس سے کاروبار کو نقصان پہنچے گا اور اس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت سست ہو جائے گی۔‘
اس کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے شہری ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نیوزی لینڈ سے زیادہ خوشحال پڑوسی ملک آسٹریلیا جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے سال نیوزی لینڈ سے ریکارڈ 47,000 شہریوں نے ہجرت کی۔
آسٹریلیا، جس نے خود بھی تارکین وطن کے بہاؤ کا سامنا کیا، نے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی طلبا اور کم ہنر مند کارکنوں کے لیے ویزا قوانین کو سخت کر کے اپنی امیگریشن کی تعداد کو آدھا کر دے گا۔
آسٹریلوی حکومت پر کچھ حلقوں کی طرف سے دباؤ ہے کہ وہ آسٹریلیا کے رہائشی بحران اور بنیادی ڈھانچے کی پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد کے لیے تارکین وطن کی ملک میں ہجرت کو عارضی طور پر کم کرے۔