ایٹاہولبہ ایمرائز
عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ
یاکوزا 20 سے زائد مجرمانه گروہوں پر مشتمل جاپانی مافیا ہے۔ اس تنظیم کا سب سے بڑا اصول ہے کہ کوئی عورت اس کی رکن نہیں ہو سکتی۔
تین صدیوں پر مشتمل یاکوزا کی تاریخ میں صرف ایک ہی خاتون اس مافیا کی رکن بن سکی ہیں اور وہ ہیں نیشیمورا ماکو۔
اپنی باغی طبیعت کے سبب، نشیمورا چھوٹی عمر میں ہی بوسوزوکو نامی موٹرسائیکل گینگ میں شامل ہوگئیں۔
ان کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کی ملاقات یاکوزا کے ایک نوجوان رکن سے ہوئی۔ نشیمورا منظم جرائم کی اس دنیا سے اتنی متاثر ہوئیں کہ جلد ہی وہ اس مافیا کی غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہو گئیں۔
نشیمورا اب 57 سال کی ہیں۔ بظاہر کمزور جسامت کی مالک نشیمورا کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ وہ کبھی یاکوزا کی ایک پرتشدد کارکن تھیں۔
’میں لڑنے بھرنے میں بہت اچھی تھی اور کبھی کسی مرد سے نہیں ہاری۔‘
یہ انھوں نے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی محقق مارٹینا براڈیل کو بتایا تھا۔ مارٹینا کئی سال تک قریب سے یاکوزا کا مطالعہ کرنے کے بعد نشیمورا کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
نشیمورا نے یاکوزا میں گزارے وقت کے دوران حریفوں کو مارنے سے لے کر منشیات کی سمگلنگ، جسم فروشی کے لیے خواتین کی سمگلنگ تک سب کچھ کیا اور شاید ان کا یہ بے رحم روپ ہی تھا جس نے خواتین کے لیے وہ دروازے کھول دیے جو اس وقت بند تھے۔
مارٹینا براڈیل کئی سال سے جاپانی مافیا یاکوزا کا مطالعہ کر رہی ہیں
حالیہ دہائیوں میں یاکوزا کے زوال اور اپنی ذاتی زندگی میں آنے تبدیلیوں کے باعث انھوں نے انڈر ورلڈ کو خیرباد کہہ دیا اور ایک عام سی زندگی اپنا لی۔ اب وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔
آج وہ ایک خیراتی تنظیم چلاتی ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد ایسے سابق مافیا ممبران کی مدد کرنا ہے جو جرم کی دنیا کو چھوڑ کر معاشرے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتے ہیں۔
نیشیمورا اور یاکوزا کی کہانی سے متاثر ہو کر، مارٹینا براڈیل نے جاپان میں منظم جرائم کی دنیا سے جڑے افراد کے ساتھ رابطوں کا ایک نیٹ ورک بنایا۔ اس کے نتیجے میں وہ نشیمورا سے دوستی کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
بی بی سی منڈو نے مارٹینا کا انٹرویو اس وقت کیا جب وہ ٹوکیو سے 270 کلومیٹر گیفو میں یاکوزا کی سابق رکن سے ملاقات کرنے بعد واپس آئی تھیں۔
جب مارٹینا سے پوچھا گیا کہ اس بات کی تصدیق کیسی ہو سکتی ہے کہ نشیمورا کے علاوہ کوئی اور یاکوزا خاتون رکن نہیں تھی، ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا۔
’پولیس کے پاس یاکوزا کے ارکان کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایسی بہت سی خواتین تھیں جو مافیا کی مدد کرتی تھیں لیکن کے ان جیسا کوئی اور نہیں۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ یہ سب نشیمورا کے باس کی وجہ سے تھا، جنھوں نے انھیں گروپ کا رکن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ’یہ بات ثابت ہے کہ وہ اس (یاکوزا) کی باقاعدہ رکن تھیں۔ ان کے پاس اپنی ’ساکازوکی‘ تقریب کی تصاویر ہیں ، جو جاپانی مافیا کے ساتھ وفاداری اور وابستگی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔‘
اپنی نشیمورا سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مارٹینا کا کہنا تھا کہ ان کی یاکوزا میں دلچسپی اس وقت شروع جب دورانِ تعلیم ان کی یاکوزا اراکین سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات اتفاقاً جاپان کے ساحلِ سمندر پر ہوئی تھی۔
’اس ابتدائی ملاقات نے میری اس تنظیم میں گہری دلچسپی پیدا ہوگئی اور میں نے اپنے تعلیمی کیریئر کو اس تنظیم کے مطالعہ کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بہت کم لوگ یاکوزا پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس پر کام کرنے والے صحافیوں سے لے کر محققین تک وہ سب کو جانتی ہیں۔ ’مجھے میرے سینپائی (استاد) نے بتایا کہ وہ نشیمورا سے ملنے جا رہے ہیں اور انھوں نے ہی نشیمورا سے میرا تعارف کرایا۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ ان کی نشیمورا سے پہلی ملاقات سابق قیدیوں کے دوبارہ انضمام اور بحالی کے لیے منعقد ایک پروگرام کے دوران ہوئی جہاں وہ اپنے گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ موجود تھیں۔
’ہم پہلے رات کو کھانے اور پھر کیری اوکی (جہاں لوگ پہلے سے ریکارڈ شدہ موسیقی پر مائیکروفون پر ساتھ گانے گاتے ہیں) پر گئے۔ وہ شراب نوشی نہیں کرتی، وہ سگریٹ نہیں پیتی اور پہلی دفعہ وہ کافی محتاط تھیں۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ اس کے بعد ان کی تواتر سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور بالآخر ان کے درمیان ایک رشتہ استوار ہو گیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ نشیمورا نے یاکوزا میں شمولیت کیوں اختیار کی تو مارٹینا کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ ان میں بہت چھوٹی عمر سے ہی تشدد کا رجحان تھا اور وہ لڑائی سے لطف اندوز ہوتی تھی۔ شروع میں انھوں نے موٹرسائیکل گینگز کے ساتھ گھومنا شروع کر دیا اور لوگوں کے ساتھ لڑائیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اور جلد ہی انھیں احساس ہو گیا کہ اپنی قدرے چھوٹی جسامت کے باوجود ان میں غیر معمولی طاقت ہے۔ ان کا قد محض پانچ فٹ اور وزن 45 کلوگرام تھا۔‘
نشیمورا کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کٹی ہوئی ہے۔ اس بارے میں بات کرتےہوئے ماٹینا نے بتایا کہ نشیمورا صرف 20 سال کی تھیں جب انھوں نے ایک غلطی کی پاداش میں اپنی انگلی کاٹ دی تھی۔
’انھوں نے سوچا کہ ان کی کٹی انگلی ٹیٹو کے ساتھ مل کر اچھی لگے گی۔ یہ دونوں چیزیں یاکوزا کی سب سے نمایاں علامتوں میں سے ہیں۔‘
نیشیمورا ماکو (نیچے بائیں) جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ اپنی قدرے چھوٹی جسامت کے باوجود ان میں غیر معمولی طاقت ہے
نشیمورا یقین دلاتی ہیں کہ انھیں اس سے درد محسوس نہیں ہوتا اور انھیں اپنے ساتھیوں کی چھوٹی انگلی کاٹنے میں کوئی اعتراض نہیں جو خود ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مارٹینا کے مطابق نشیمورا یوبیٹسومی رسم کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ اس رسم میں یاکوزا کے ارکان کی چھوٹی انگلی کے ایک حصے کو کاٹ دیا جاتا تھا۔
مارٹینا بتاتی ہیں کہ نشیمورا نے سب سے پہلے یاکوزا کو اس وقت چھوڑا جب وہ حاملہ ہوئیں۔ انھوں نے نوکری تلاش کرنی شروع کر دی لیکن جاپانی معاشرے نے انھیں ان کے ٹیٹو کی وجہ مسترد کر دیا تھا۔ یہ ٹیٹو مافیا کی رکنیت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
انھوں نے لمبی آستینیں پہن کر ان ٹیٹو کو چھپانے کی کوشش کی لیکن آخر کار ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو پتا چل گیا اور انھیں دو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔
’وہ بہت پریشان تھیں۔ وہ ماں بننے والی تھیں، انھیں اچھی نوکری کی تلاش تھی تاکہ وہ اس مجرمانہ زندگی کو پیچھے چھوڑ سکیں لیکن دوسروں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ان پر دروازے بند کر دیے گئے۔ انھیں لگا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور اس نے انھیں اور بھی بنیاد پرست بن گئیں۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نشیمورا نے اپنی انگلیوں تک ٹیٹو بنوا لیے اور خود کو اپنی قسمت کے دھارے پر چھوڑ دیا۔
یاکوزا میں واپسی سے پہلے کچھ عرصے کے لیے ان کی شادی ایک یاکوزا کے رکن سے ہوئی تھی جو باس بن گیا تھا، تو انھوں نے ایک یاکوزا باس کی بیوی کا کردار بھی نبھایا ہے۔
یاکوزا کو چھوڑنا کتنا مشکل ہے؟
جب مارٹینا سے پوچھا گیا کہ کیا یاکوزا کو چھوڑنا مشکل نہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار آپ کے باس پر ہے۔
’اگر آپ کا باس راضی ہے، تو آپ کو کچھ رقم ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بعض اوقات، اگر باس کو آپ کے جانے سے مسئلہ نہِیں تو آپ کو کچھ بھی نہیں دینا پڑتا ہے۔ حالات مختلف و سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر آپ زیادہ پریشانی کا سمانا کیے بغیر جا سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یاکوزا کوئی دھکی چھپی تنظیم نہیں اور پولیس پہلے سے جانتی ہے تنظیم کا کا باس کون ہے، انھیں سب کا پتا ہوتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی سے بھی مل سکتے ہیں۔
’یہ سسلی کی طرح نہیں میں جہاں مافیا کے ممبران 30 سال تک چھپے رہ سکتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ چھوڑ کر جانے والے افراد اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ خیانت نہیں کرتے کیونکہ یاکوزہ میں اس کو بہت شرمناک مانا جاتا ہے۔
مافیا سے نکلنے کے بعد، نیشیمورا اور یاکوزا کے دیگر سابق ارکان سابق مجرموں کو معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں
یاکوزا اور اطالوی مافیا میں کیا مماثلت ہے؟
مارٹینا کے مطابق یاکوزا اور اطالوی مافیا میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ دونوں تنظیمیں نجی تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اپنے علاقوں پر کنٹرول قائم رکھتی ہیں، جس سے ان کو غیر قانونی اور قانونی دونوں طرح کی منڈیوں پر حکومت کر نے میں مدد ملتی ہے۔
اٹلی اور روس کے مافیا کی طرح، یاکوزا بھی طویل عرصے کے لیے کسی بھی جگہ اپنی اجارہداری قائم رکھ سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے یاکوزا نہ صرف تنازعات کے حل کے لیے بلکہ ماکیٹوں کو کو کنٹرول کرکے تحفظ مہیا کرنے کے نام پر رقم بھی حاصل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرپاتی ہے۔
یاکوزا 20 سے زائد مجرمانه گروہوں پر مشتمل جاپانی مافیا ہے
یاکوزا میں عورتوں کا مقام
مارٹینا کہتی ہیں کہ عورتوں کا عام طور پر یاکوزا سے تعلق رشتے یا شادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ خواتین باقاعدہ ممبر نہیں ہوتی ہیں لیکن وہ یاکوزا کے لیے کسی نہ کسی قسم کا کام کررہی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک باس کی بیوی ہیں تو آپ اپنے آپ کو شوخ زندگی گزارنے تک محدود نہیں رکھ سکتیں اور آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ باس اور دوسرے اراکین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یاکوزا میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے۔ یاکوزا جسم فروشی اور فحش فلموں جیسی صنعتوں میں ملوث ہیں۔ نشیمورا ماکو نے بھی ایسا ہی کیا: وہ خواتین کی سمگلنگ اور استحصال میں ملوث رہی ہیں۔
جب مارٹینا سے پوچھا گیا کہ انھوں نے یاکوزا اراکین سے کیا سیکھا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں نے یقیناً غلطیاں کی ہوں گی کیونکہ وہ مجرمانہ سرگرمیاں کر رہے ہیں لیکن میں انھیں برے لوگوں کے طور پر نہیں دیکھتی۔‘
ان میں سے اکثر ان چیزوں کی تلاش میں تھے جو ان کے پاس نہیں تھی۔ ’ان میں سے کئی افراد کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع نہیں تھے۔ جاپان میں، اگر آپ کے پاس تعلیم نہیں یا آپ کا خاندان آپ کی مدد نہیں کر سکتا تو آپ کے لیے نوکری حاصل کرنا اور آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر افراد کے لیے یاکوزا کا حصہ بننا کسی غیر رسمی گروہ سے جڑنے سے بہتر ہے کیونکہ یاکوزا کا نہ صرف اپنے اراکین پر کچھ حد کنٹرول ہوتا ہے بلکہ کافی حد تک ایک نظریاتی ایجنڈا بھی مہیا کرتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ برسوں سے یاکوزا سے تعلق رکھنے کے باوجود انھیں کبھی کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ان کے مطابق یاکوزا اطالوی مافیا کی طرح مکمل طور پر غیر قانونی تنظیم نہیں۔ ’جاپان میں یاکوزا گروپ کا حصہ بننا غیر قانونی نہیں۔‘
مارٹینا کہتی ہیں ان کا غیر ملکی خاتون ہونا ان کے حق میں جاتا ہے کیونکہ اگر ان کو کچھ ہوا تو یہ ان کی ساخت کے لیے بہت برا ہو گا۔