اتوار کو اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں موجود اپنی فوجیں واپس بُلانے کی خبر نے اکثر افراد کو چونکا دیا تھا اس سے قطع نظر کا اسرائیلی فوج اور حکومت کا کہنا ہے کہ فوج واپس بلانے کے اس اقدام کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
تاہم پوری دنیا، جس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کی گئی بمباری کی شدت کو قریب سے دیکھا ہے، کے لیے یہ خیال کہ اب پورے غزہ میں اسرائیل کی صرف ایک بریگیڈ موجود رہے گی اس جنگ میں ایک بڑی تبدیلی کا عکاس ہے۔
اس کے علاوہ سب سے اہم بات فوج واپس بلانے کے اعلان کا وقت تھا۔ یہ فیصلہ اُس دن کیا گیا جب حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کو چھ ماہ مکمل ہو چکے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر کے ایک ترجمان ایوی ہیمن نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس بارے میں (زمینی فوج غزہ سے واپس بلانے کا اقدام) زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ ایوی ہیمن نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی دفاعی افواج اب بھی کوئی بھی ایسی کارروائی کر سکتیں ہیں جو انھیں ضروری لگے، اس سے قطع نظر کہ زمینی افواج غزہ میں موجود ہوں یا نہیں۔
شاید اپنے اسی مؤقف کو تقویت دینے کے لیے ہی، چند گھنٹوں کے بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے ایک سینیئر حماس رہنما حاتم الغمری کو ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا نے اس حکمتِ عملی پر مختلف قسم کا ردِعمل دیا ہے۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے فوجوں کے انخلا کی وجہ اسرائیلی حکومت پر حماس سے جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کرنے کے حوالے سے موجود دباؤ کو قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ تازہ ترین مذاکرات کے دوران اسرائیل پر جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ ’اسرائیلی ترجمان کی جانب سے بیان کی گئی وجوہات کی نوعیت آپریشنل تھی لیکن ہر ذہین آدمی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس فیصلے کی ٹائمنگ محض اتفاق نہیں تھی۔ آنے والے دنوں میں انتہائی اہم مذاکرات کے دور سے پہلے اسرائیل کا انخلا پہلے سے طے شدہ تھا اور یہ سب خاموشی سے کیا جانا تھا۔ اس کا مقصد حماس کو یہ بتانا تھا کہ اسرائیل اس بارے میں بہت نرمی دکھا رہا ہے۔‘
بین کیسپٹ اسرائیل کے سینٹرسٹ ماریو اخبار میں لکھتے ہیں اور وہ اس حوالے سے جارحانہ رائے رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نتن یاہو سے پوچھیں (اور ان سے پوچھا گیا) تو وہ کہیں گے کہ یہ رفح میں آپریشن کے لیے تیاری کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔۔۔ لیکن اس بارے میں دوسری رائے بھی موجود ہے اور وہ پوری دنیا میں ہر زبان میں شائع کی جا چکی ہے۔ اس کے مطابق 98ویں ڈویژن کا خان یونس سے انخلا یرغمالیوں سے متعلق معاہدے سے جڑا ہوا ہے۔‘
’دنیا بھر کے معروف میڈیا اداروں کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم نتن یاہو کے درمیان ہونے والی گفتگو ڈرامائی تھی۔ بائیڈن نے نتن یاہو کو یہ سمجھایا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ فتح سے ایک قدم دور ہیں بلکہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان موجود اتحاد کے خاتمے سے ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔‘
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے امریکہ میں ایک ہسپانوی زبان کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک یونیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے وہ (نتن یاہو) غزہ میں جو کر رہے ہیں وہ ایک غلطی ہے۔ میں ان کی حکمتِ عملی سے اتفاق نہیں کرتا۔‘
’میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ اسرائیلی جنگ بندی کا اعلان کریں اور اگلے چھ سے آٹھ ہفتے ملک میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی مکمل فراہمی کو یقینی بنائیں۔ میں نے اس بارے میں سعودی عرب، اُردن اور مصر کے رہنماؤں سے بات کی ہے۔ وہ غزہ میں امداد لے جانے کے لیے تیار ہیں۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم لوگوں کی طبی اور خوراک سے متعلق ضروریات کو پورا نہ کریں۔ یہ فوری طور پر کیا جانا چاہیے۔‘
عوامی طور پر تو کم از کم نتن یاہو نے رفح پر حملے کے حوالے سے اپنے بیانیے کو تقویت دی ہے اور کہا ہے کہ آپریشن کے لیے تاریخ چن لی گئی ہے۔ تاہم دوسری جانب ان کے وزیرِ دفاع یوئیو گیلانٹ نے فوجیوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ وقت حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کا ’بہترین موقع‘ ہے۔
تاہم انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بندی کو جنگ کے اختتام کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے ہمیں مشکل فیصلے لینے ہوں گے اور یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے ہر قیمت چکانے کے لیے تیار رہنا ہو گا، اور پھر دوبارہ لڑنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔‘
جیسے گیلانٹ نے کہا کہ لڑائی تو جاری رہے گی لیکن یہ اب کیا شکل اختیار کرے گی یہ یکسر تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے سب سے طاقتور اتحادی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے جنگی طرزِ عمل پر شدید تنقید کی گئی ہے اور ممکنہ طور پر غزہ سے فوجیوں کی واپسی کی ایک وجہ بائیڈن انتظامیہ کو یہ دکھانا ہو سکتا ہے کہ ہم (اسرائیل) عام شہریوں کی ہلاکتوں اور انسانی امداد کی خطرناک حد تک کمی سے متعلق آپ کے خدشات سُن رہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے بمباری روکنے کا عمل، جس نے شہروں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا، شاید واشنگٹن کی حمایت دوبارہ حاصل کرنے میں کارگر ثابت ہو۔
تاہم اس حوالے سے مزید امتحان آتے رہیں گے۔
اگر ’مستقبل کے آپریشن‘ جن کے لیے اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو آرام دے رہی ہے تاکہ رفح میں پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا جا سکے جہاں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس نے اپنی تمام عسکری صلاحیت یکجا کر رکھی ہے، یہیں پر اب کم از کم 10 لاکھ بے گھر فلسطینی آباد ہیں۔
اس حوالے سے اسرائیلی حکومت اور فوج میں ممکنہ طور پر یہ رائے بھی پائی جاتی ہو گی کہ اس آبادی کا ایک بڑا حصہ جسے ان کے حملوں کے باعث بدحال پناہ گاہوں میں رہنا پڑتا تھا اب واپس اپنے گھروں میں جا چکے ہوں گے کیونکہ اب یہاں سے فوجیں واپس بلا لی گئی ہیں۔ لیکن جو فلسطینی خان یونس واپس پہنچے ہیں انھیں وہاں تباہی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیا اور ان کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
انھوں نے یہ بتایا ہے کہ کیسے غزہ کا دوسرا بڑا شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا، اور کچھ کے مطابق تو جانوروں کے لیے بھی وہاں کچھ نہیں رہا۔
تاہم اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این ڈبلیو آر اے) نے خبردار کیا ہے کہ جو فلسطینی خان یونس واپسی کا سوچ رہے ہیں انھیں اسرائیلی فوجوں کے وہاں سے نکلنے کے بعد ایسے بارود سے خود کو بچانا چاہیے جو ابھی پھٹا نہیں ہے۔
اس ادارے کے سربراہ فلیپی لازرانی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ملبے میں ایسی ہزاروں ڈیوائسز ہو سکتی ہیں جو پھٹ سکتی ہیں اور نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
تاہم ’مزید آپریشنز‘ کا تعلق اسرائیل کے شمال میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بھی ہو سکتا ہے اور یہاں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ سات اکتوبر کے بعد سے بتدریج ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ یہ اس سے بہت زیادہ شدید ہو سکتا ہے، خاص طور پر دمشق پر ایران قونصل خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سینیئر کمانڈر کی ہلاکت کے بعد۔
حزب اللہ ایران کا قریبی اتحادی ہے اور اس کی جانب سے تہران کے بیانیے کی حمایت کرتے ہوئے بدلے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اسرائیلی فوج نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس نے شمالی علاقے میں بھی اپنی کمانڈ کو مضبوط کیا ہے اس لیے شاید یہ بھی غزہ سے فوجیں واپس بلانے کی وجہ بنا ہو۔
اسرائیلی فوج کی جانب فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ یقیناً متعدد وجوہات کے باعث ہوا ہو گا، لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہیں کہ اسرائیلی فوج کی غزہ میں موجودگی مستقبل قریب میں مکمل ختم ہو جائے گی کیونکہ حالیہ دنوں میں حماس کے جنگجوؤں نے ایسے علاقوں میں یکجا ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جہاں آئی ڈی ایف کی جانب سے سب سے شدید بمباری کی گئی تھی۔