لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن کے علاقے میں بہت ہی قلیل عرصے کے دوران دو ڈاکو خوف اور دہشت کی علامت بن کر سامنے آئے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ٹوپیاں پہنے وہ دونوں پھر کہیں سے نمودار ہوں گے، کسی کو لوٹیں گے، گولیاں چلائیں گے اور لوگوں کو زخمی یا قتل کر کے فرار ہو جائیں گے۔
صرف دو ماہ میں انھوں نے پانچ افراد کو قتل کیا۔ ان میں ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ ایک اور پولیس کانسٹیبل اور بہت سے عام شہری ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے۔
وہ صرف ڈکیتی کے دوران مزاحمت یا پولیس سے اچانک سامنے ہو جانے پر ہی گولیاں نہیں چلاتے تھے۔ کم از کم تین افراد کو انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کر کے قتل کیا۔
ایک شخص کو ’اجرت‘ یا ’سپاری‘ لے کر قتل کیا۔ قتل کے اس مقدمے میں مدعی بننے والے شخص کو بھی پولیس کے مطابق ان ہی دونوں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
دو مختلف واقعات میں قتل اور زخمی ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ان دونوں ’سگے بھائیوں‘ نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا۔ جاتے ہوئے وہ ان دونوں کی سرکاری بندوقیں بھی ساتھ لے گئے۔
یہ سب کچھ انھوں نے محض دو ماہ کی قلیل مدت میں کیا۔ اس تمام عرصے میں پولیس ان تک نہیں پہنچ پائی۔ وہ دونوں شاہدرہ ٹاؤن ہی میں رہتے رہے۔
لاہور کی سٹی پولیس کے مطابق ’وہ دونوں چھلاوے کی طرح آتے، واردات کرتے، گولیاں چلاتے اور واپس جا کر شاہدرہ ہی میں چھپ جاتے۔‘
ان دونوں کا تعلق ’ٹوپی گینگ‘ سے بتایا جا رہا ہے۔ اس گینگ کے ارکان نے چوری، ڈکیتی یا قتل کی وارداتوں میں اس انداز سے ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں کہ واردات کے دوران ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مقصد اپنی شناخت چھپانا ہوتا ہے۔
لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ٹوپی گینگ کے دو ’ڈاکوؤں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا‘
ٹوپی گینگ سے تعلق رکھنے والے ان دونوں ڈاکوؤں کی آخری واردات چند روز قبل ہی شاہدرہ ٹاون میں ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک دودھ دہی کی دکان پر ڈکیتی کی۔ ڈکیتی کے دوران انھوں نے فائرنگ کی جس میں ایک 17 سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی۔
لڑکی کے والد کو بھی ڈاکوؤں کی چلائی ہوئی گولی لگی جنھیں بعد میں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
اس واقعے کی ویڈیو پاکستان میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی گردش کرتی رہی۔ اسی واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے دونوں ڈاکووں نے کچھ فاصلے پر گلی کنارے کھڑے شہروز نامی ایک نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق دونوں ڈاکوؤں کو شک تھا کہ شہروز ان کے خلاف پولیس کو مخبری کرتا تھا۔ ڈکیتی اور قتل کے ان دو واقعات کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان دونوں ڈاکوؤں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔
لاہور پولیس نے تصدیق کی کہ دونوں ڈاکوؤں کو ’پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔‘ ان کی شناخت عباس اور حیدر علی بتائی گئی۔ دونوں کی عمریں 22 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔
ہر سال پولیس مقابلے یا ’انکاؤنٹر‘ کے ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں جن میں قتل، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کے مطلوب ملزم کی ’شوٹ آؤٹ کے دوران‘ ہلاکت کے ساتھ کیس بند ہوجاتے ہیں۔
مگر سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مارے جانے والے مبینہ ڈاکوؤں کی لاشوں کو گاڑیوں میں ڈال کر علاقے سے گزر رہی ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد اردگرد موجود ہے۔
مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ پولیس کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں لوگوں کو پولیس اہلکاروں کو گلے لگاتے اور ان پر پھولوں کی پتیاں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ دو ماہ سے پولیس کے لیے ’چھلاوہ‘ ثابت ہونے والے ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکوؤں تک پولیس اچانک کیسے پہنچ گئی اور وہ کیسے ہلاک ہوئے۔
شاہدرہ کا ٹوپی گینگ کون ہے؟
لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ٹوپی گینگ کے نام سے کام کرنے والے چند افراد پہلے بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
گذشتہ برس ڈولفن پولیس نے بھی ایک شخص کو پولیس کے ساتھ مقابلے کے دوران ہلاک کیا۔ اس شخص کی شناخت حمزہ کے نام سے ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ حمزہ ’ٹوپی گینگ کا سرغنہ تھا جو پولیس کو قتل، ڈکیتی اور چوری وغیرہ کی کئی وارداتوں میں مطلوب تھا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سٹی سرکل کے سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن ریٹائرڈ قاضی علی رضا نے بتایا کہ شاہدرہ میں مارے جانے والے دونوں مبینہ ڈاکو ٹوپی گینگ بنانے والوں میں شامل نہیں تھے۔
’یہ دونوں کچھ عرصہ پہلے ہی اس گینگ میں شوٹرز کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ ٹوپی گینگ اس سے پہلے سے کام کر رہا تھا۔‘
ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق ٹوپی گینگ بنیادی طور پر گاؤں کے ایسے نوجوان لڑکوں پر مشتمل تھا جو ’معمولی نوعیت کے چھینا جھپٹی‘ کے واقعات میں ملوث تھا۔ وہ کہتے ہیں یہ زیادہ تر گاؤں کے ایسے لڑکوں نے مل کر بنا لیا تھا جو لوگوں سے پیسے اور مال چھیننے کی وارداتیں کرتے تھے۔
تاہم دو برس قبل پولیس نے اس گینگ کے خلاف کارروائی کی اور ان کے کئی ممبران کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس گینگ کو اس وقت ختم کر دیا گیا تاہم گینگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ بعد میں ’لڑکے اس گینگ میں شامل ہوئے جو کچھ عرصہ پہلے چھوٹے تھے لیکن گینگ کے ان بڑے لڑکوں سے متاثر تھے جنھیں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہی چھوٹو‘ اب اس گینگ کو چلا رہے تھے۔ ’یہ لوگ ٹوپیاں پہن کر وارداتیں کرتے ہیں۔‘
پولیس کے مطابق دو مختلف واقعات میں قتل اور زخمی ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ان دونوں ڈاکوؤں نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا۔ جاتے ہوئے وہ ان دونوں کی سرکاری بندوقیں بھی ساتھ لے گئے
ٹوپی گینگ کے ڈاکوؤں نے ’پولیس کو بھی نشانہ بنایا‘
پولیس کے بقول کچھ عرصہ قبل ٹوپی گینگ میں علی حیدر اور عباس نامی دو سگے بھائیوں نے شمولیت حاصل کی۔ ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق ’یہ دونوں اس گینگ کے شوٹرز بنے ہوئے تھے۔ گینگ کے چھوٹو ان کو استعمال کرتے تھے۔‘
پولیس آفیسر کے مطابق حیران کن طور پر یہ دونوں بھائی ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے گارڈز تھے۔ ’دن کے وقت یہ دونوں گارڈز کے طور پر ڈیوٹی کرتے اور رات کے وقت یہ ڈکیتی اور قتل جیسی وارداتیں کرتے۔‘
انھوں نے پہلی مبینہ ڈکیتی کی واردات رواں برس 31 جنوری کو کی جس میں یہ ایک راہگیر سے نقدی وغیرہ چھین کر فرار ہوئے اور جاتے ہوئے گولی مار کر اسے زخمی کر دیا۔ کچھ ہی روز بعد تین فروری کو انھوں نے مبینہ طور پر ڈکیٹی کے دوران فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل کیا۔
ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ ان دونوں ’شوٹرز‘ نے مبینہ طور پر کرائے کے لیے قتل بھی کیا۔ ان کے مطابق اس کے عوض معاوضہ بھی انھوں نے کوئی بہت زیادہ نہیں لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس مقدمے میں مدعی گوگی بٹ نامی شخص کو بھی مبینہ طور پر قتل کر دیا۔
ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس گینگ کے لوگوں کی کارروائیوں اور خاص طور پر ان دو ’ڈاکوؤں‘ کی کارروائیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گاؤں کے ایسے بظاہر سادہ لوح لڑکے تھے جنھیں اپنے اقدامات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔
’وہ پولیس کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں ہچکچائے۔ انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کسی پولیس اہلکار کو مارنے کے بعد وہ زیادہ عرصہ بچ نہیں پائیں گے۔‘
قاضی علی رضا کہتے ہیں کہ پولیس کے جس ہیڈ کانسٹیبل کو ان دونوں بھائیوں نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی سے قتل کیا وہ ان کے خلاف ’تحقیقات کرتا ہوا ان کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ انھیں یہ خوف تھا کہ وہ جلد ان تک پہنچ جائے گا۔‘
اس لیے انھوں نے اس کو ہی ’راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔‘
دوسرے پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے خیال میں وہ ان کے خلاف ’تحقیقات کر رہا تھا۔‘
’اپنی طرف سے وہ اسے ختم کر گئے تھے اور اس کی رائفل بھی ساتھ لے گئے تھے وہ۔ تو اس کی جان بچ گئی۔‘
ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکو زیادہ سے زیادہ عرصے تک پولیس کو خود سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق انھیں شہروز نامی شخص پر شک تھا کہ وہ پولیس کو ان کے خلاف مخبری کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر اپنی آخری ڈکیتی کی واردات میں 17 سالہ لڑکی کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے شہروز کو بھی قتل کیا۔
پولیس ان تک کیسے پہنچی؟
ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس گذشتہ دو ماہ سے ان کے چھپنے کی جگہ کا سراغ لگانے کے لیے کام کر رہی تھی۔
ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد انھوں نے ایک حکمتِ عملی سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں دونوں ڈاکو وارداتیں کرنے کے بعد جا کر چھپتے تھے۔
قاضی علی رضا نے بتایا کہ پولیس نے اس کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں کو استعمال کیا۔ انھیں مردم شماری کرنے والوں کے بھیس میں اس علاقے میں بھیجا گیا جہاں دونوں مبینہ ڈاکو چھپتے تھے۔
ان خواتین اہلکاروں نے تقریباً سات دن تک اس علاقے میں مردم شماری کے اہلکار بن کام کیا۔ ’انھوں نے یہ معلوم کیا کہ دونوں شوٹرز عین کس جگہ پر چھپے ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پولیس عنقریب ان کے خلاف کارروائی کرنے جا رہی تھی تاہم ایک ہی دن میں دو قتل کے واقعات نے ان کے پلان کو بدل دیا۔ انھوں نے فوری ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔
ایس پی سٹی نے بتایا کہ جب پولیس دونوں مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے اس مقام تک پہنچی جہاں وہ چھپے ہوئے تھے تو پولیس کو دیکھ کر انھوں نے ’پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کے ساتھ اسی شوٹ آؤٹ میں دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے۔‘
پولیس کے بقول وہ ان مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے ہی گئی تھی تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا شوٹ آؤٹ سے قبل پولیس کے پاس انھیں گرفتار کرنے کا موقع تھا یا نہیں۔
اکثر انکاؤنٹرز میں پولیس کی طرف سے یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ اہلکاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جبکہ مبینہ جرائم پیشہ عناصر غالباً اپنے ہی ساتھیوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔
دریں اثنا پولیس کے مطابق ٹوپی گینگ کے دس سے بارہ مزید مبینہ ارکان کو بھی گرفتار کیا گیا جو کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی سی آئی اے کے حوالے کر دیے گئے ہیں جو اس معاملے کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔