سیکس کرنے کی خواہش کو عموماً جنسیت ابھارنا اور لیبیڈو سمجھا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کو عام طور پر ایک ہی بات سمجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان کے معنی کم ہی لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں۔
لیبیڈو سے مراد سیکس ڈرائیو ہوتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ یا تو زیادہ ہو گا یا کم۔ جنسی خواہشات دراصل ہمارے جسم کو سیکس کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتی ہیں، جیسے دل کی دھڑکن میں تیزی اور ہماری سیکس کے اعضا تک خون کی روانی میں تیزی۔
لیکن طب کی زبان میں سیکس کی خواہش کسی بھی شخص میں سیکس کرنے کی ضرورت ہے جو تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
متعدد انسانی رویوں کی طرح سیکس ایک رویہ ہے لیکن پھر بھی سیکس کرنے کے لیے کوئی ایسا نمبر نہیں جو نارمل تصور کیا جائے یا اسے اچھا یا برا سمجھا جائے۔ اس کے برعکس سیکس کتنی مرتبہ کیا جاتا ہے، یہ کتنے وقت کے لیے ہوتا ہے اور کس قسم کا سیکس کیا جاتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہر شخص کے لیے جنسی لذت کے کیا معنی ہیں۔
لوگ بہت ساری مختلف وجوہات کے باعث سیکس کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے اس حوالے سے یہ نظریہ تھا کہ سیکس کرنے کی خواہش کا تعلق کسی بھی شخص کی سیکس ڈرائیو سے ہے اور دراصل یہ ایک ہی چیز ہے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا ہم سب کے جسموں میں طے شدہ عمل ہے لیکن اس کی وجہ سے اکثر خواتین پر سیکس کی خواہش کم ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا تھا صرف اس لیے کیونکہ وہ اتنا سیکس نہیں چاہتی تھیں جتنا ان کے ساتھی چاہتے تھے۔
یہ نظریہ جنسی ردِعمل کے دوہری کنٹرول ماڈل کے ذریعے تبدیل ہوا۔ اس کے مطابق دو بالکل آزادانہ عمل طے پا رہے ہوتے ہیں جو ہمارے جنسی ردِعمل کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک جوش دلانے والا عمل جبکہ دوسرا اس کو روکنے والا عمل ہے۔
ان دونوں مخالف مراحل کا توازن یہ طے کرتا ہے کہ کسی بھی لمحے پر ہمارا ردِ عمل کیا ہو گا۔ ان کی مثال کسی گاڑی کے ایکسیلریٹر اور بریک سے لی جا سکتی ہے۔
سیکس کے معاملے میں کون کتنا ایکسیلریٹر اور کتنی بریک دبائے گا یہ امر ہر شخص کے لیے تبدیل ہو سکتا ہے اور کسی ایک شخص کے اندر بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس لیے سیکس کی خواہش ایک پیچیدہ، ذاتی اور تبدیل ہونے والی چیز ہے۔
جب ہم سیکس کرنے کی خواہش کی سائنس کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہم اسے دو مختلف اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
ایک کسی لمحے میں پیدا ہونے والی فوری خواہش جبکہ دوسری کسی چیز کے ردِ عمل میں پیدا ہونے والی خواہش ہے۔ فوری خواہش کسی بھی لمحے پیدا ہو سکتی ہے، چاہے وہ کسی وجہ سے ہو یا اس کے بغیر۔ یہ اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب لوگ نوجوان ہوتے ہیں یا کسی نئے رشتے یا کسی کے ساتھ تعلق کے آغاز میں ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس کسی چیز کے ردِ عمل میں آنے والی سیکس کی خواہش وہ ہے جو آپ کو کوئی کتاب پڑھنے یا اپنے ساتھی کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کے بعد محسوس ہوتی ہے اور یہ عموماً طویل طرز کے رشتوں میں نظر آتی ہے جب سیکس کی فوری خواہش کم ہو جاتی ہے۔
یہ دو اقسام کی خواہشات خواتین کے جنسی ردِ عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دو قسم کی خواہشات جنسی جذبات ابھارنے سے پہلے یا بعد میں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس طرح یہ بہتر انداز میں بتایا جا سکتا ہے کہ خواتین سیکس کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں، ان کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے اور اس دوران ان تجربہ رہتا ہے۔
اس میں جسمانی اور جذباتی قربت کی بھی کلیدی اہمیت ہوتی ہے اور اکثر اوقات یہ خواتین میں سیکس کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس سب میں بہت سارے جسمانی، ذہنی اور معاشرتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں جو سیکس کرنے کی خواہش کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی جسمانی عارضے سے متاثر ہیں جیسے جوڑوں کا درد یا مینوپاز سے متعلق اندام نہانی میں پائی جانے والی علامات جن کے باعث سیکس کے دوران درد ہو سکتا ہے تو آپ فوری طور پر پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔
اس طرح سیکس کے دوران آپ کا بریک لگانے کا عمل آپ کے ایکسلریٹر دبانے کے عمل پر حاوی آ جائے گا اور یوں آپ میں سیکس کی خواہش کم ہو جائے گی۔
قدرتی طور پر ہم وہ چیزیں نہیں کرنا چاہتے جن سے ہم محظوظ نہیں ہوتے اور یہ بات ذہنی اور جسمانی مسائل کے لیے بھی صحیح ہے۔
اگر ہم پرسکون نہیں محسوس کر رہے ہیں مثال کے طور پر اپنے جسم کے بارے میں یا ہمارے رشتے میں تناؤ ہے تو ہم سیکس سے محظوظ نہیں ہوں گے اور یہ ہمارے سیکس سے متعلق نظریے کو متاثر کر سکتا ہے اور یوں ہماری سیکس کرنے کی خواہش کو بھی۔
اس کے علاوہ ایسے بیرونی عوامل ہیں جن کے باعث سیکس کرنے کی خواہش کم ہو سکتی ہے۔ جیسے مثال کے طور کام کی مصروفیت، کھانا پکانا، بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ۔ نہ ختم ہونے والے کاموں کی فہرست آپ کے جسم اور ذہن کی سیکس کی خواہش پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
بہترین سیکس دراصل ایک رویہ ہے جسے آپ کو وقت کے ساتھ بہتر بنانا ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ سے موجود نہیں ہوتا۔
یہ ایسے نہیں کہ یا تو آپ میں یہ صلاحیت ہے یا نہیں بلکہ ایک تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال جسے بہتر بنانا پڑتا ہے تاہم یہ بات اکثر لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی، جس سے وہ سیکس سے متعلق اپنے رویے کے بارے میں بھی ابہام کا شکار رہتے ہیں جس سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
اگر ہم سیکس کی خواہش کی سائنس پر مزید تحقیق کریں اور اس حوالے سے آگاہی حاصل کرتے رہے تو ہمیں اپنی سیکس کرنے کی خواہش کے بارے میں بھی مزید معلومات مل جائیں گی جن سے ہم خوش اور بہتر سیکس والی زندگیاں گزار سکیں گے۔