پانچ جنوری 1917 کا دن تھا۔ احمد آباد میونسپیلیٹی کے دریا پور وارڈ میں کونسلر کی سیٹ پر ضمنی انتخابات کے دوران ووٹنگ ہو رہی تھی جس میں تین امیدوار میدان میں تھے اور تینوں نے ہی الیکشن جیتنے کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔
اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن تین امیدواروں میں سے ایک سردار ولبھ بھائی پٹیل آگے چل کر آزاد انڈیا کے پہلے نائب وزیر اعظم منتخب ہوں گے۔ یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا پہلا الیکشن تھا۔
احمد آباد میونسپیلیٹی میں کونسلر کی یہ سیٹ سید احمد میاں شرف الدین کے وفات پا جانے کے باعث خالی ہوئی تھی اور اس پر ضمنی انتخاب ہو رہا تھا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھی کونسلر کی اس نشست پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
پانچ بجے ووٹنگ ختم ہوئی اور بیلٹ باکس سربمہر کر دیے گئے جس کے بعد یہ ڈبے احمد آباد میونسپیلیٹی کے مرکزی دفتر پہنچا دیے گئے۔ گنتی کا عمل مکمل ہوا تو حیران کن نتیجہ نکلا۔ سردار پٹیل صرف ایک ووٹ سے الیکشن جیت چکے تھے۔
برطانوی افسر کو سبق سکھانے کے لیے الیکشن میں حصہ لیا
مصنف اور مؤرخ رضوان قادری نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جب احمد آباد میونسپیلیٹی قائم ہوئی تو ایک انگریز افسر جان شلیڈی یہاں کے کمشنر تعینات ہوئے۔
بی بی سی سے گفتگو میں رضوان قادری نے بتایا کہ جان شلیڈی غصے کے تیز تھے اور ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی تھے۔ ’وہ منتخب اراکین کے کاموں میں روڑے اٹکاتے تھے، اسی لیے میونسپیلیٹی کے کونسلروں اور چند دوستوں نے سردار پٹیل سے درخواست کی کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں اور منتخب بورڈ کے رکن بن جائیں تاکہ جان شلیڈی کا بندوبست ہو سکے۔‘
گاندھی کے پوتے راجموہن گاندھی نے اپنی کتاب ’پٹیل: اے لائف‘ میں لکھا ہے کہ سردار پٹیل کے دوستوں کا ماننا تھا کہ صرف وہی اس برطانوی افسر کو انتظامی امور میں مداخلت کرنے سے روک سکتے ہیں۔
راجموہن گاندھی کے مطابق سردار پٹیل نے فیصلہ کیا کہ احمد آباد میونسپیلیٹی کو برطانوی افسر کے چنگل سے آزاد کروایا جائے اور اسی لیے انھوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
رضوان قادری کے مطابق سردار پٹیل سنہ 1913 میں احمد آباد آئے اور وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ عدالت کے ساتھ ہی گجرات کلب تھا جہاں وہ دوستوں کے ساتھ برج کھیلتے تھے۔ 1915 میں گاندھی احمد آباد آئے تو گجرات کلب بھی گئے لیکن اس وقت تک سردار پٹیل کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی۔
رضوان قادری کے مطابق سردار پٹیل نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ لوگ حمایت نہیں کریں گے لہذا سیاست سے دور رہیں لیکن اس وقت تک سردار پٹیل اپنا ذہن بنا چکے تھے۔
سردار پٹیل کی فتح عدالت میں چیلنج
کونسلر کی نشست پر سردار پٹیل کے علاوہ بیرسٹر غلام محی الدین اور ہومی پستانجی چاہے والا بھی امیدوار تھے۔ پارسی امیدوار ہومی پستانجی نے شکست دیکھتے ہوئے الیکشن کے دوران ہی مقابلے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور جب نتیجہ آیا تو سردار پٹیل ایک ووٹ کے فرق سے جیت گئے۔
پٹیل کو 313 ووٹ ملے جبکہ غلام محی الدین کو 312۔ غلام محی الدین نے نتیجہ عدالت میں چیلنج کر دیا اور دعویٰ کیا کہ رتی لال نامی ایک کم عمر شخص نے بھی ووٹ دیا جسے مسترد کر دیا جانا چاہیے کیوں کہ وہ نابالغ تھے اور ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے۔
رضوان قادری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 26 مارچ 1917 کو ڈسٹرکٹ جج نے یہ درخواست نمٹاتے ہوئے اس ووٹ کو منسوخ کر دیا اور الیکشن کا نتیجہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ دونوں فریقین الیکشن پر آنے والے اخراجات کا نصف ادا کریں گے اور کونسلر کی نشست دوبارہ خالی قرار دے دی گئی۔
جب دوبارہ الیکشن ہوا تو سردار پٹیل پھر سے امیدوار بن گئے اور رضوان قادری کے مطابق اس بار ان کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔
جیسے ہی سردار پٹیل الیکشن جیتے، انھوں نے وہ کام کر دکھایا جو ان کو یہاں تک لے کر آیا تھا۔ انگریز افسر کو کمشنر کے عہدے سے ہٹانے کی تجویز بورڈ میں لائی گئی اور اسے منظور کر لیا گیا۔ حکومت نے منتخب نمائندگان سے تنازع مول لینے کے بجائے افسر کا تبادلہ کرنے میں عافیت جانی۔
اس کے بعد سردار پٹیل نے چار بار احمد آباد میونسپیلیٹی کا الیکشن لڑا اور سنہ 1924 میں چیئرمین منتخب ہوئے۔ سنہ 1928 میں سردار پٹیل نے بطور صدر استعفیٰ دیا جب انھوں نے جدوجہد آزادی میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔
انڈیا کی آزادی کے بعد وہ ملک کے پہلے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم بنے لیکن 1951 میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی وفات پا گئے۔
اگر سردار پٹیل کونسلر کا الیکشن نہ جیت پاتے؟
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اگر سردار پٹیل اپنا پہلا الیکشن ہار جاتے تو کیا ملکی سیاست میں ان کا بعد میں نظر آنے والا کردار بھی ختم ہو جاتا؟
رضوان قادری کہتے ہیں کہ ان کی پہلی خواہش یہ تھی کہ وہ ایک کالج کھولیں۔ تو اگر وہ یہ الیکشن ہار جاتے تو شاید ملک کو سردار نہ ملتا۔
ہری دیسائی، جنھوں نے سردار پٹیل کی زندگی پر کافی تحقیق کی ہے، کا ماننا ہے کہ اگر سردار پٹیل الیکشن ہار جاتے تو شاید بطور وکیل پریکٹس جاری رکھتے۔
ایک ووٹ کی اہمیت
سردار پٹیل کی پہلے الیکشن میں جیت نے ایک ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو 1999 میں اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تو کانگریس کے رکن پارلیمان گردھر گومانگ، جو اوڈیسہ کے وزیر اعلی بن چکے تھے لیکن ابھی بطور رکن پارلیمان مستعفی نہیں ہوئے تھے، ووٹنگ کے دوران موجود تھے۔
ان کے ووٹ ڈالنے کے حق پر کافی بحث ہوئی لیکن سپیکر نے کہا کہ یہ فیصلہ خود گردھر گومانگ ہی کریں۔ انھوں نے ووٹ ڈالا اور واجپائی حکومت صرف ایک ووٹ سے گِر گئی۔
فاروق عبد اللہ کی نیشنل کانفرنس جماعت نے واجپائی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا لیکن ان کی جماعت کے ایک رکن، سیف الدین، نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔ یوں واجپائی کی حکومت صرف 13 ماہ بعد ختم ہو گئی۔
سنہ 2008 میں بی جی پی امیدوار نینا وکرم مدھیہ پردیش میں صرف ایک ووٹ سے جیت گئی تھیں۔ ایسی ہی ایک اور مثال 2018 میں راجھستان اسمبلی کے انتخابات میں بھی سامنے آئی جہاں سی پی جوشی کانگریس کے صدر اور وزیر اعلیٰ کی کرسی کے مضبوط امیدوار تھے۔ تاہم ان کے مخالف امیدوار کلیان سنگھ چوہان ایک ووٹ سے جیت گئے۔ اس کے بعد دوبارہ گنتی کا مطالبہ ہوا اور ایک سو اٹھاون پوسٹل ووٹ مسترد ہوئے۔ تاہم جیت پھر بھی کلیان سنگھ کی ہوئی۔
انڈیا کے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائے قریشی
یہ تمام تفصیلات انڈیا کے سابق الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے اپنی انگریزی میں لکھی گئی کتاب ’این ان ڈاکیومنٹڈ وونڈر: دی میکنگ آف دی گریٹ انڈین الیکشنز‘ میں درج کی ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’گجرات کے جوناگڑھ ضلع کے اونا بلاک کے گِر جنگلات میں سنہ 2022 کے انتخابات میں گجرات اسمبلی کے ایک حلقے میں ایک پولنگ سٹیشن قائم کیا گیا۔‘
’ایک پجاری مندر میں پوجا کر رہا تھا۔ یہاں جانے والی سڑک بھی خراب اور کچی ہے۔ یہاں جنگلی جانوروں کا خطرہ رہتا ہے۔ اگرچہ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں تھا مگر پھر بھی قریب ہی محکمہ جنگلات کے ایک کمرے میں پولنگ بوتھ بنایا گیا تھا۔‘
سنہ ’2019 تک، گرو بھرت داس کی زندگی مندر کے لیے وقف تھی۔ وہ سنہ 2019 تک یہاں ووٹ ڈالتے تھے۔ وہ صبح اپنا ووٹ ڈالیں گے لیکن پولنگ کا وقت ختم ہونے تک الیکشن اہلکار ڈیوٹی پر موجود رہیں گے کیونکہ قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ان کے ووٹ کو چیلنج کرنا چاہتا ہے تو وہ کر سکتا ہے۔‘
ایسے ہی ایک اور پولنگ سٹیشن پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر ایس وائی قریشی لکھتے ہیں کہ ’2004 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران، کیرالہ کے کوزی کوڈ ضلع کے چرنگاٹو کیندرا میں صرف ایک ووٹر تھا۔ کاکیام ڈیم کے گھنے جنگلات میں واقع چرنگاٹو میں کل 351 ووٹر تھے۔ ان میں سے 350 ووٹر دوسری جگہوں پر منتقل ہوئے لیکن ایک ووٹر زندگی بھر وہیں رک گیا۔ ان کے حق کا احترام کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ان کے گھر کے قریب بجلی بورڈ کے ایک دفتر میں پولنگ سٹیشن قائم کر دیا۔ سنہ 2007 میں یہ واحد ووٹر مر گیا اور ایک ووٹ والا پولنگ سٹیشن بند کر دیا گیا۔‘
ہری دیسائی کہتے ہیں کہ انڈیا کی تاریخ میں ’ایک ووٹ کی اہمیت بار بار دیکھی، محسوس کی گئی ہے، چاہے وہ سردار دور میں ہو یا جوشی کی شکست کا معاملہ ہو۔‘
رضوان قادری کا کہنا ہے کہ ’سردار پٹیل کی یہ انتخابی جیت ثابت کرتی ہے کہ ایک ووٹ کتنا فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔‘