عالمی ٹینس سٹار، ثانیہ مرزا کا کہنا ہے کہ ماں بننے کے بعد ان کو صبر کرنا آ گیا ہے۔ ان کے بقول زندگی میں پیسہ اور نام سب سے اہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ کون مشکل میں ساتھ کھڑا ہے۔
بی بی سی نامہ نگار سرواپریا سنگوان کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ثانیہ مرزا نے زندگی سے جڑے بہت سے اہم امور پر بات چیت کی جسے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ریٹائرمنٹ کا فیصلہ
ثانیہ مرزا نے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بہت سے لوگ آج بھی ان سے پوچھتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں ثانیہ مرزا کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے بہت سے لوگوں نے پوچھا ریٹائرمنٹ کے فیصلے کے بارے میں کہ ابھی آپ نے فائنل کھیلا ہے۔ میں بلندی پر رک جانا چاہتی تھی اور یہ میرے نزدیک بہت اہم تھا۔‘
تاہم ثانیہ کے مطابق ان کے لیے خود کو فٹ رکھنا اب آسان نہیں رہا تھا۔
’دوسری وجہ میرا جسم تھا کیوں کہ میرا جسم ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔ میری تین سرجریاں ہو چکی ہیں اور پھر بچے کے بعد ریکوری ویسی نہیں ہو پاتی تھی جس طریقے کی آپ کو چاہیے ہوتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ تو دیکھ لیتے تھے کہ آپ ایک گرینڈ سلیم کے فائنل میں ہو لیکن جو بات لوگ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ اس فائنل تک پہنچنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں ثانیہ کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بات سمجھتی ہوں کہ ہر کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتی کہ لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں۔‘
’آپ کو آپ کی فیملی میں ہر کوئی پسند نہیں کر سکتا تو دنیا میں کیسے کریں گے اور ہم تو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہر کسی کے الگ نظریات ہوتے ہیں، الگ انتخاب ہوتا ہے، پسند نا پسند ہوتی ہے اور ہمارے اپنے بھی ہوتے ہیں۔‘
ہم نے ثانیہ سے پوچھا کہ ان کے مطابق ان کے اندر سب سے بڑی تبدیلی کیا آئی ہے تو انھوں نے دلچسپ جواب دیا۔
’میرا خیال ہے کہ مجھ میں صبر زیادہ آ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو عمر ہے لیکن ایک بڑی وجہ میرا بچہ بھی ہے کیوں کہ میرے خیال میں جب آپ ماں بنتے ہیں تو صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
’اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مجھ میں صبر آیا ہے کیوں کہ پہلے میں ایک جذباتی شخصیت رکھتی تھی۔ اب میں کوئی بھی بات کہنے سے پہلے یا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے زیادہ سوچتی ہوں۔‘
’دولت اور شہرت سب سے اہم نہیں‘
ایک انٹرویو میں ثانیہ نے کہا تھا کہ ان کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ وہ حقیقت سے دور نہ ہو جائیں۔ اس بیان کا پس منظر ثانیہ سے جاننا چاہا تو ان کا جواب یہ تھا؛
’میرا خیال ہے کہ ہم جس طرح کی دنیا میں اب رہتے ہیں، چاہے وہ سوشل میڈیا کی ہو، یا میرے کیس میں شہرت کی دنیا ہو، بہت سے لوگ آپ کو بہت سی اچھی باتیں سنا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے قریب ایسے لوگ بھی ہوں جو آپ سے سچ بولیں۔‘
’اور یہ بات میرے نزدیک بہت اہم ہے کہ آپ حقیقت سے قریب رہیں کہ آپ کے لیے کیا چیز اہم ہے اور کون اہم ہے اور آپ خود کس کے لیے اہم ہیں۔‘
ثانیہ سمجھتی ہیں کہ دولت اور شہرت زندگی میں سب سے اہم نہیں۔
ثانیہ نے کہا کہ ’زندگی میں سب سے اہم چیزیں کیا ہیں؟ میرے خیال میں سب سے اہم پیسہ یا شہرت یا چیزیں نہیں ہے۔ ہاں، یہ ایک حصہ ضرور ہیں آسائش کا لیکن یہ سب سے زیادہ اہم چیزیں نہیں ہیں۔‘
’اہم بات یہ ہے کہ آپ کے مشکل وقت میں کون آپ کے ساتھ ہے جب آپ کو ضرورت ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ خود کس کے لیے ایسا کرنے کو تیار ہیں۔‘
’جو کھیل سے سیکھا کسی کتاب سے نہ سیکھ پاتی‘
ثانیہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کھیل میں آپ جیتنا بھی سیکھتے ہیں اور ہارنا بھی سیکھتے ہیں تو کیا یہ سبق زندگی میں بھی کام آتے ہیں یا زندگی کے مسائل الگ ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں وہی چیزیں زندگی میں بھی کام آتی ہیں کیوں کہ وہ آپ کی شخصیت سازی کرتی ہیں۔ میرے خیال میں مجھے جو تعلیم کھیل سے ملی، دنیا میں ایسی کوئی کتاب شاید نہ ہو جو مجھے اتنا کچھ سکھا سکتی۔‘
’انسان اچھے دن بھی دیکھتا ہے اور برے دن بھی ہوتے ہیں، آپ جیتتے ہیں، کبھی آپ ہارتے ہیں لیکن پھر لوٹ کر آتے ہیں اور دوبارہ سے کوشش کرتے ہیں۔ اور کوشش ہوتی ہے کہ پہلے سے خود کو زیادہ بہتر بنائیں۔‘
’یہی سبق زندگی میں بھی کام آتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربات سے یہی سیکھا ہے کہ برے دن ختم ہو جاتے ہیں اور اچھے دن بھی ہمیشہ نہیں رہتے لیکن آپ کوشش کرتے ہیں کہ اچھے دن کچھ زیادہ دیر رہ جائیں اور جب برا دن آتا ہے تو آپ کوشش کرتے ہیں کہ اگلے دن آپ بہتر کریں۔‘
ثانیہ نے لڑکیوں کے لیے کھیل کا ایک دروازہ کھولا اور انڈیا میں بہت کچھ بدلا ہے۔ لیکن کیا ان کے مطابق ابھی بھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے؟
’ہاں، سفر تو ہے اور وہ کسی حد تک ثقافتی بھی ہے، کچھ معاملات میں مذہبی بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اتنے متنوع ملک سے تعلق رکھتے ہیں کہ سب کا ذہن ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔‘
’لیکن میرے خیال میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ لڑکی کو موقع تو دو، میرے نزدیک یہ سب سے بڑی بات ہے کیوں کہ پہلے تو موقع ہی نہیں ملتا تھا۔‘
’جب کوئی لڑکی کچھ کرنے جاتی تھی تو اس کو کہہ دیا جاتا تھا کہ نہیں تم نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کو زیادہ یہی بات سننے کو ملتی ہے کہ تم یہ نہیں کر سکتی۔‘
’تم ایسے نہیں بیٹھ سکتی، تم یہ نہیں کر سکتی، تم ادھر نہیں جا سکتی، تم رات میں باہر نہیں جا سکتی، تمھیں اتنے بجے واپس آنا ہے، بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں۔‘
’میرے خیال میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ پابندیاں کیوں ہیں اور اگر ہیں تو مسئلے کی جڑ کو نکالنا ہے۔‘