عمران خان :
راولپنڈی سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے گزشتہ پانچ روز سے پراسرار طور پر لاپتا ہونے والے افسر کو اب اغوا کیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ سامنے آنے والی تازہ صورت حال کے مطابق ایف بی آر کے 18 گریڈ کے مغوی افسر رحمت اللہ کی رہائی کے لئے اہل خانہ کو فون کال موصول ہوئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغوی کچے کے علاقے میں موجود ہے جس کے لئے 10ملین یعنی ایک کروڑ اور ایک دوسری اطلاع کے مطابق 10 کروڑ روپے تاوان طلب کرلیا گیا ہے۔ مغوی افسر کے حوالے سے تازہ معلومات سے چیئرمین ایف بی آر ملک اممجد زبیر ٹوانہ کو آگاہ کردیا گیا ہے، جبکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی تلاش شروع کردی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایف بی آر گریڈ 18 کے افسر کی رہائی کے لئے 1 کروڑ روپے تاوان طلب کیا گیا ہے۔ جبکہ، مبینہ اغوا کاروں کے مطابق مغوی ایف بی آر افسر رحمت اللہ کچے کے علاقے میں ہے۔ مذکورہ افسر عید الفطر کے تیسرے روز یعنی 12 اپریل کو پر اسرار طور پر لاپتا ہوگئے تھے۔ جس کے بعد ان کے اہل خانہ اور محکمہ کے ساتھی ان کو تلاش کرتے رہے تاہم ان کے موبائل نمبروں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔
’’امت‘‘ کوموصول ہونے والے مقدمہ الزام نمبر 296/2024 کی کاپی سے معلوم ہوا ہے کہ بعد ازاں 15 اپریل کو ایف بی آر کے لاپتا افسر کے برادر نسبتی محمد شفیق کی جانب سے روالپنڈی کے تھانہ آر اے بازار میں رپورٹ درج کروائی گئی، جس میں کہا گیا کہ رحمت عید کے تیسرے روز دوپہر کو ساڑھے 11بجے کے قریب گھر سے یہ کہہ کر نکلا تھا کہ وہ دوستوں سے عید ملنے جا رہا ہے۔ تاہم پورا دن گزرنے کے بعد جب وہ واپس نہیں آیا تو اس کے پاس موجود دونوں موبائل نمبروں پر رابطہ کیا جاتا رہا جن سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا تھا۔ مقدمہ میں مدعی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ ایف بی آر کے افسر رحمت اللہ کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے یا پھر انہیں کسی نے اغوا کرلیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد تھانہ پولیس کی جانب سے اہل خانہ اور دیگر قریبی عزیزوں کے بیانات قلمبند کئے گئے جبکہ لاپتا افسر کے موبائل نمبروں کے کال ڈیٹا سے اس کو ٹریس کرنے کی کوشش شروع کردی گئی۔ جس میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی مدد حاصل کی جا رہی ہے۔ تاہم اسی دوران گزشتہ روز اس معاملے میں اک نیا موڑ سامنے آیا جب لاپتا افسر کے بہنوئی اوراہل خانہ کی جانب سے پولیس کو آگاہ کیا گیا کہ انہیں کالز موصول ہوئیں ہیں جن میں سندھی لب و لہجے میں ان سے بات چیت کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ مغوی رحمت اللہ ان کے پاس کچے کے علاقے میں موجود ہے اور اس کی رہائی کے لئے ایک کروڑ روپے کی رقم بطور تاوان مانگی گئی ہے۔ گزشتہ روز ہی یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ مغوی کی رہائی کے لئے در اصل 10کروڑ روپے مانگے گئے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں تھانہ آر اے بازار روالپنڈی یا ایف بی آر حکام کی جانب سے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق عید الفطر سے قبل کچے کے ڈاکوؤں نے سکھر ڈویژن سمیت اطرافی شہروں کی سڑکوں پر ویگو گاڑیاں چھیننے کے لئے خصوصی ٹیمیں متحرک کردیں تھیں ۔کچے کے ڈاکوؤں کو کچے میں اپنا راج برقرار رکھنے کے لئے طاقتور انجن کی حامل 4×4 گاڑیوں کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ ڈاکو ویگو گاڑیوں کے حصول کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس ضمن میں بعض وفاقی اداروں بشمول سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے بھی اندرون سندھ میں اپنے فیلڈ افسران اور ملازمین کے لئے ’’سفری ہدایات‘‘ ٹریول ایڈوائزری جاری کیں جن میں بتایا گیا کہ سکھر ڈویژن کے پولیس حکام کے مطابق ڈاکو عید سے پہلے ویگو اور دیگر 4X4 گاڑیوں کی چوری کے لئے بیتاب ہیں، لہذا اندرون سندھ سفر کے لئے مندرجہ ذیل ضروری احتیاط کریں۔ ان ہدایات میں شہریوں اور سرکاری افسران کو کچے کے اطراف کے شہروں کی سڑکوں پر 4×4 گاڑیوں کے کم سے کم استعمال کا مشورہ دیا گیا۔
انہی ہدایات میں کہا گیا کہ کراچی سے سکھر اور شکارپور سفر کرنے والی گاڑیاں صرف نیشنل ہائی وے استعمال کریں۔ سکھر ملتان موٹر وے صرف دن میں استعمال کرنے اور کسی بھی قیمت پر گھوٹکی، میرپورماتھیلو اور کشمور انٹرچینج پر اور مختصر قیام سے منع کیا گیا۔اس میں مزید کہا گیا کہ 15 اپریل 2024ء تک شکارپور، گڑھی یاسین روڈ، قمب لاڑکانہ، جیکب آباد، ٹھل، ہمایوں ٹھل روڈ اور لنک روڈز پر کسی بھی صورت 4×4 گاڑیوں پر سفر نہ کریں۔
چند روز قبل شکارپور پولیس کو کچے میں جاری ڈاکوئوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران اہم کامیابی حاصل ہوئی تھی جس میں ایک مغوی کو باحفاظت بازیاب کرلیا گیا تھا۔10 دن پہلے اغوا ہونے والے ڈسٹرکٹ سکھر پنوعاقل کے رہائشی حساب میرانی کو باحفاظت بازیاب کرالیا گیاتھا۔ شکارپور پولیس کا مغویوں کی بازیابی کیلئے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی شکارپور عرفان علی سمون کی سربراہی میں خانپور کے کچے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا گیا تھا۔
ذرائع کے بقول تازہ معاملے میں دیگر پہلوئوں کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پہلو پر بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ افسرکسی اور شخص یا گروپ نے اغوا کیا ہو اور وہ پنجاب ہی کے کسی علاقے میں ہو تاہم اس معاملے میں کچے کے ڈاکوئوں کا نام استعمال کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اہل خانہ کو زیادہ ہراساں کیا جانا ممکن ہے۔ تاہم اس پہلو بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ مغوی کو پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے ٹریپ کرکے اغوا نہ کیا گیا ہو جس کو عرف عام میں ہنی ٹریپ کہا جاتا ہے۔
اس طرح کی وارداتوں میں اب تک درجنوں افراد کو پنجاب ، خیبر پختون خوا اور کراچی سے مختلف قسم کے جھانسے دے کر ایسے سنسان علاقوں میں بلایا گیا جہاں سے ڈاکو انہیں آسانی اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے اور بعد ازاں وہ کچے کے علاقوں میں موجود پائے گئے۔ تاہم اصل حقائق تفتیش مکمل ہونے پر ہی سامنے آسکیں گے اس سے قبل کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔