گو ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کا وطیرہ ہے کہ کھیل سے پہلے ہی پورا میچ ڈریسنگ روم میں طے کر لیا جاتا ہے مگر کامیابی کے لیے ان عزائم میں لچک کی گنجائش رکھنا بھی ضروری ہے۔
پاکستانی بولرز اس لچک سے عاری تھے۔
کامن سینس اور ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کا ڈیٹا، دونوں یہی بتاتے ہیں کہ جب وکٹ بیٹنگ کے لیے اس قدر موافق ہو تو گیند کی لائن کو بلے سے حتی الوسع دور رکھنا ہی بقا کی سبیل ہو سکتا ہے۔
کیوی بولرز نے بھی اگرچہ آغاز اپنے طے شدہ پلان سے ہی کیا لیکن جب پاور پلے کی ابتدا سے ہی گیند باؤنڈری کا طواف کرنے لگی تو فوراً اپنے طے شدہ عزائم میں لچک پیدا کی اور نظرِ ثانی کر کے جارحیت کی نئی جہت وضع کی۔
راولپنڈی کی پچ پاکستان کے تمام وینیوز میں سے تیز ترین واقع ہوئی ہے اور اسی سبب ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بڑے مجموعوں کی اعانت کرتی رہی ہے۔ یہاں بولرز کے لی میچ اور عزت بچانے کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ ہے آف سٹمپ کے باہری ترین لائن پہ بولنگ۔
گو یہ ہوم سیریز پاکستان کی ہے اور کنڈیشنز بھی پاکستان کی مرضی کی، مگر حیران کن امر یہ رہا کہ مہمان ٹیم کیسے اس وینیو کا وہ رمز فوراً پا گئی جو میزبان کو میچ گنوانے تک مل ہی نہ پایا۔
پاکستان نے پاور پلے کا آغاز جس رفتار سے کیا اور پچ جس قدر سازگار تھی، یہاں 200 کے لگ بھگ مجموعہ یقینی نظر آتا تھا۔ لیکن بریسویل کے بولرز نے گیند بلے کی پہنچ سے دور کر دی اور پاکستانی بلے بازوں کو امتحان میں ڈال دیا۔
نہ صرف یہ پچ بلے بازی کے لیے نہایت سازگار تھی بلکہ کیوی بولرز بھی تجربے سے عاری تھے اور پاکستان کو ایک صحتمند آغاز بھی مل چکا تھا تو پھر کیا وجہ ہو سکتی تھی کہ پاکستان ایک خطیر ہندسے سے پیچھے رہ جاتا؟
لیکن پھر کیوی بولنگ کا ڈسپلن ایسا شاندار ہوا کہ پاکستانی مڈل آرڈر گیند کا تعاقب کرتا رہ گیا۔ ڈیتھ اوورز میں عالم یہ تھا کہ انیسواں اوور باؤنڈریز کا بحران ثابت ہوا۔
اگر شاداب خان کی یہ ہنگامی اننگز ہمرکاب نہ ہوتی تو پاکستانی بیٹنگ کا 160 تک پہنچ پانا بھی دشوار ہوا جاتا تھا۔ لیکن کیوی بولنگ کا پلان اس قدر موثر تھا کہ 200 پہ نظریں جماتی ٹیم 180 کے مسابقتی ہندسے سے بھی پیچھے رہ گئی۔
اس پہ ستم یہ کہ اوس کے ہنگام بولنگ بھی پاکستان ہی کو کرنا تھی۔
جب تک پاکستانی سپنرز کہانی میں آئے، کیوی بیٹنگ اپنے پنجے گاڑ چکی تھی اور چیپ مین کے قدم حرکت میں آ چکے تھے۔ اوس کے سبب گیند گرفت کھو رہی تھی اور میچ پاکستان کے ہاتھوں سے سرک رہا تھا۔
جو جادو مڈل اوورز میں اش سوڈی نے جگایا، پاکستانی سپنرز اس سے قاصر رہے اور جو مواقع ابرار احمد نے پیدا کیے، وہ بھی بے ثمر رہ گئے کہ تب تک مارک چیپ مین کی پیش قدمی پاکستانی فیلڈرز کے اعصاب پہ طاری ہو چکی تھی۔
چیپ مین اس تیقن سے متحرک ہوئے کہ پاکستان کو پچھلے قدموں پہ دھکیل دیا۔ ان کی جارحیت پاکستان کے لی خاصی غیر متوقع تھی کہ یکے بعد دیگرے شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کے بدترین اوورز دیکھنے کو ملے۔
چوبیس گھنٹے پہلے کی کیوی پرفارمنس ایک یکطرفہ، بے کیف سی سیریز کی پیشگوئی کر رہی تھی مگر یہاں چوبیس ہی گھنٹے بعد فیورٹ ٹیم اپنے گھٹنوں پہ دکھائی دی اور چیپ مین کی پیش قدمی سب کو حیران کر گئی۔