چھ سال پہلے ایک مسلمان لڑکا شمالی انڈیا کے شہر آگرہ کے ایک معروف سکول سے سرخ چہرے کے ساتھ واپس گھر آیا۔ نو برس کے اس بچے نے اپنی ماں کو بتایا کہ ’میرے ہم جماعت مجھے پاکستانی دہشت گرد کہتے ہیں۔‘
ریما احمد، جو ایک مصنفہ ہیں، کو یہ دن اچھی طرح سے یاد ہے۔ ’اس دن ایک چھوٹے پرجوش لڑکے نے اتنی زور سے اپنی مٹھیاں بھینچی کہ اس کی ہتھیلی پر ناخنوں کے نشان پڑ گئے۔ وہ بہت غصے میں تھا۔‘
ان کے بیٹے نے کہانی سنائی کہ جیسے ہی ان کے استاد کلاس سے باہر نکلے تو اس کے ہم جماعتوں نے اس لڑکے سے لڑائی شروع کر دی۔ ’اس وقت طلبہ کے ایک گروہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستانی دہشتگرد ہے، اسے مار ڈالو۔‘
بچے نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس کے کچھ ہم جماعتوں نے اسے نالی کا کیڑا بھی کہا۔ ریما احمد نے جب اس سارے واقعے کی شکایت سکول انتظامیہ سے کی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کا ’یہ محض وہم ہے ۔۔۔ ایسی چیزیں نہیں ہوئیں۔‘
ریما احمد نے بالآخر اپنے بیٹے کو سکول سے نکال لیا۔
آج 16 برس کا یہ نوجوان گھر پر ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے بیٹے کے تجربات سے معاشرے کے سخت رویوں کا مشاہدہ کیا یہ ایک ایسا احساس تھا جس کا مجھے اپنی جوانی میں یہاں پرورش پانے کے دوران کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔‘
’ہمارے طبقاتی استحقاق نے شاید ہمیں ہر وقت مسلمان محسوس کرنے کی کیفیت سے بچائے رکھے ہو گا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ طبقاتی برتری آپ کو مزید ہدف بنا رہی ہے۔‘
جب سے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی سنہ 2014 میں اقتدار میں آئی ہے، انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔
ہندو مشتعل ہجوم نے گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے کے شبے میں متعدد افراد کو مارا پیٹا اور چھوٹے مسلمان تاجروں کو نشانہ بنایا ہے۔ مساجد کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ ٹرولز نے مسلم خواتین کی آن لائن ’نیلامیوں‘ کا اہتمام کیا ہے۔
دائیں بازو کے گروپس اور ’مین سٹریم‘ میڈیا نے ’جہاد‘، ’لو جہاد‘ کے الزامات لگا کر اسلاموفوبیا کو ہوا دی ہے۔ مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے مذہب تبدیلی کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے تین چوتھائی واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے سامنے آئے ہیں۔
’بیئنگ مسلم اِن ہندو انڈیا‘ کے مصنف ضیا السلام کا کہنا ہے کہ ’مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں، اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل اقلیت ہیں۔‘
لیکن بی جے پی اور وزیراعظم مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے نیوز ویک میگزین کو بتایا کہ ’یہ محض چند لوگوں کے مسائل ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے نکل کر دوسرے لوگوں سے ملنے تک کی زحمت نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی اقلیتیں بھی اب اس بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔‘
پھر بھی ریما احمد، جن کا خاندان کئی دہائیوں سے آگرہ میں مقیم ہے، شہر کی تنگ گلیوں کے درمیان واقع پرہجوم گھروں میں بسنے والے ہندو دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک تبدیلی محسوس کرتی ہیں۔
سنہ 2019 میں ریما احمد نے ایک پیغام کی وجہ سے سکول کا واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیا۔ اس گروپ میں صرف دو مسلمان تھے جن میں سے ایک ریما تھیں۔ انھوں نے اس گروپ کو ان دنوں چھوڑا جب انڈیا نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔
واٹس ایپ گروپ کے اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’اگر انھوں نے ہمیں میزائلوں سے نشانہ بنایا تو ہم ان کے گھروں میں گھس کر انھیں مار ڈالیں گے۔‘ یہ پیغام وزیراعظم مودی کے اس پیغام سے متاور ہو کر بھیجا گیا تھا جس میں انھوں نے دہشت گردوں اور انڈیا کے دشمنوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارنے کے بارے میں کچھ کہا تھا۔
ریما احمد اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس لمحے بس ’میری برداشت جواب دے گئی۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا آخر تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم عام شہریوں اور بچوں کے قتل کا جواز فراہم کر رہے ہو۔‘
ریما امن کی بات کرتی ہیں۔ مگر انھیں جواب مل گیا۔ انھیں کسی نے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان نواز ہیں محض اس وجہ سے کہ آپ مسلمان ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھ پر ملک دشمنی کا الزام عائد کیا۔‘
’اچانک عدم تشدد کی اپیل کرنا جیسے ملک دشمن ہونے کے مترادف بنا دیا گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے ملک کی حمایت کے لیے پُرتشدد ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے گروپ کو خدا حافظ کہہ دیا۔‘
بدلتے ہوئے ماحول کو مختلف طریقے سے بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ طویل عرصے سے ان کا وسیع و عریض گھر جنس یا مذہب سے قطع نظر ان کے بیٹے کے ہم جماعتوں کے لیے ایک دوسرے سے ملنے کا مرکز رہا ہے۔ لیکن اب ’لو جہاد‘ کے نام نہاد دور ہے، جس میں ہندو لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص وقت تک وہاں سے نکل جائیں اور اس کے کمرے میں نہ ٹھہریں۔
ان کے مطابق ’میں نے اور میرے والد نے اپنے بیٹے کو بٹھایا اور ان سے کہا کہ ماحول اچھا نہیں ہے۔ آپ کو اپنی دوستی کو محدود کرنا ہوگا، محتاط رہیں، باہر زیادہ دیر تک نہ رکیں، آپ کو نہیں معلوم کہ کب حالات ’لو جہاد‘ کا رخ اختیار کر لیں۔‘
آگرہ میں پانچویں نسل سے رہائش پذیر ماحولیاتی کارکن ارم نے بھی مقامی سکولوں میں کام کرتے ہوئے شہر کے بچوں کے درمیان گفتگو میں تبدیلی رونما ہوتے دیکھی ہے۔ انھوں نے ایک بچے کو ایک مسلمان ہم جماعت کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’مجھ سے بات مت کرو، میری ماں نے مجھے کہا ہے کہ (تم سے بات) نہ کروں۔‘
ارم کا کہنا ہے کہ ’میں سوچ رہی ہوں، واقعی؟! یہ مسلمان فوبیا کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایسی چیز بن جائے گا جسے ہم آسانی سے پھر بہتر نہیں کر سکیں گے۔‘
ارم کے اپنے بہت سے ہندو دوست تھے، اور وہ ایک مسلمان خاتون کے طور پر خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی تھیں۔
یہ صرف بچوں کی حد تک ہی نہیں ہے۔ آگرہ کے ایک مقامی صحافی سراج قریشی بین المذاہب پر کام کرتے ہیں۔ مگر اب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ختم ہوتے پرانے تعلق پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
وہ ایک حالیہ واقعہ بیان کرتے ہیں جہاں شہر میں بکرے کا گوشت فروخت کرنے والے ایک شخص کو ہندو دائیں بازو گروہ کے ارکان نے روکا، پولیس کے حوالے کر دیا اور پولیس نے مقدمہ درج کر کے انھیں جیل بھیج دیا۔
سراج قریشی کہتے ہیں کہ ’اس شخص کے پاس باقاعدہ لائسنس تھا، لیکن پولیس نے پھر بھی اسے گرفتار کر لیا۔ تاہم بعد میں اسے رہا کر دیا گیا۔‘
معاشرے میں بہت سے لوگ ٹرین میں سفر کرنے والے مسلمانوں کے رویے میں تبدیلی کو نوٹ کرتے ہیں، جس کی وجہ ایسے واقعات ہیں جن میں مبینہ طور پر گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں مسلمان مسافروں پر حملہ کیا گیا تھا۔
ریما احمد کہتی ہیں کہ ’اب، ہم سب محتاط ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں سبزیوں کے علاوہ کچھ کھانے سے گریز کریں یا پھر اگر ہم برداشت کر سکیں تو پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر ہی نہ کریں۔‘
کلیم احمد قریشی، سافٹ ویئر انجینئر سے جیولری ڈیزائنر اور موسیقار بن گئے، ساتویں نسل سے آگرہ میں آباد ہیں۔ وہ شہر کے ورثے کے تحفظ کے لیے ’ہیریٹیج واک‘ کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
اپنے رُباب کو لے کر وہ حال ہی میں دلی سے آگرہ کے لیے ایک ہندو مسافر کے ساتھ مشترکہ ٹیکسی میں سوار ہوئے۔ ’جب انھوں نے میرے ہاتھ میں ’بریف کیس‘ دیکھا تو انھوں نے مجھ سے اسے کھولنے کو کہا۔ اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ بندوق تو نہیں ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے نام کی وجہ سے حساس ہو گئے تھے۔‘
ان کے مطابق ’یہ پریشانی ہے، جس کے ساتھ ہم رہتے ہیں۔ اب جب بھی میں سفر کرتا ہوں تو مجھے اس بات سے بہت خیال رکھنا پڑتا ہے کہ میں کہاں ہوں، میں کیا کہتا ہوں، کیا کرتا ہوں۔‘
ان کے مطابق ’ٹرین میں ٹکٹ چیک کرنے والے کو نام بتاتے ہوئے بھی میں اب پریشانی محسوس کرتا ہوں۔‘
کلیم قریشی اس رویے کی بنیادی وجہ تک سے واقف ہیں۔ ان کے مطابق ’سیاست نے برادریوں میں زہر گھول دیا ہے۔‘
بی جے پی کے ایک قومی ترجمان سید ظفر اسلام نے حال میں مجھے دہلی میں بتایا کہ ’مسلمانوں کو پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔،
انھوں نے اسلامو فوبیا میں اضافے کو ’غیر ذمہ دار میڈیا ہاؤسز‘ سے منسوب کیا۔
ان کے مطابق ’ایک چھوٹا سا واقعہ کہیں رونما ہوتا ہے، اور میڈیا اسے اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جیسا کہ پہلے کبھی ایسا ہوا ہی نہیں ہوا تھا۔ ایک ارب اور چالیس کروڑ آبادی والے ملک میں ایسے کئی واقعات کمیونٹیز کے درمیان یا کمیونٹیز کے اندر پیش آ سکتے ہیں۔‘
’آپ ایک یا دو واقعات سے اس طرح کا عمومی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ حکمران جماعت مسلم مخالف ہے۔ اگر کوئی اسے مسلمانوں کے خلاف ہدف کے طور پر پیش کرتا ہے تو وہ غلط ہے۔‘
میں نے اس سے پوچھا کہ اگر ان کے بچے سکول سے گھر آتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان ہم جماعتوں نے انھیں خاندان کے مذہب کی وجہ سے ’پاکستانی دہشت گرد‘ قرار دیا ہے تو وہ کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔
سابق بینکرسید ظفر اسلام نے سنہ 2014 میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ان کے دو بچے ہیں، جن میں سے ایک اس وقت سکول میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کسی دوسرے والدین کی طرح، مجھے بھی بُرا لگے گا۔ یہ سکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسی چیزیں نہ ہوں۔ والدین کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ایسی باتیں نہ کہیں۔‘
ایک ایسے ملک میں جہاں 79 فیصد لوگ ہندو ہیں، میں بی جے پی کے ہندو راشٹر (ریاست) کے قیام کے عزم کا کیا مطلب ہو گا؟
سید ظفر نے کہا کہ ’لوگ جانتے ہیں کہ یہ محض سیاسی بیان بازی ہے۔ کیا ہماری حکومت یا پارٹی نے ایسی باتیں کی ہیں؟ میڈیا ایسی باتیں کرنے والوں کو اتنی جگہ کیوں دیتا ہے؟ جب میڈیا ایسے لوگوں کو جگہ دیتا ہے تو ہم پریشان ہوتے ہیں۔‘
لیکن پھر مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ بی جے پی کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کوئی مسلم وزیر اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کوئی رکن بھی نہیں ہے اور ملک بھر میں 1000 سے زیادہ میں سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی مسلمان ہے۔
سید ظفر جو خود بی جے پی کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ ہیں نے کہا کہ ایسا کوئی کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں ہوا۔
ان کے مطابق کانگریس اوردیگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ اگر کوئی جماعت مسلمان امیدوار میدان میں اتارتی ہے اور مسلمان اسے ووٹ نہیں دیں گے تو پھر ایسے میں کون سی جماعت اسے ٹکٹ جاری کرے گی۔؟‘
یہ سچ ہے کہ انڈیا کے صرف آٹھ فیصد مسلمانوں نے سنہ 2019 میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا اور وہ تیزی سے مودی کی پارٹی کے خلاف ایک بلاک کے طور پر ووٹ دے رہے ہیں۔ سنہ 2020 کے بہار ریاستی انتخابات میں 77 فیصد نے بی جے پی مخالف اتحاد کی حمایت کی تھی۔
سنہ 2021 میں 75 فیصد نے مغربی بنگال میں علاقائی ’ترینمول کانگریس‘ کی حمایت کی۔ اور سنہ 2022 میں 79 فیصد نے اتر پردیش میں اپوزیشن سماج وادی پارٹی کی حمایت کی۔
سید ظفر کا کہنا ہے کہ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے کمیونٹی میں ’خوف اور اضطراب‘ پیدا کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ وفادار رہیں۔ دوسری طرف مودی حکومت ’کمیونٹیوں کے درمیان‘ تفریق نہیں کرتی۔
ان کے مطابق ’فلاحی سکیمیں تمام لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔ کچھ سکیموں سے سب سے زیادہ فائدہ مسلمان اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ درحقیقت سنہ 2020 میں شہریت کے متنازع قانون پر دلی میں ہونے والے فسادات میں 50 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ لیکن انڈیا میں آزادی کے بعد سے کئی سالوں میں اس سے کہیں زیادہ بدتر صورتحال پیدا ہوئی۔‘
سید ظفر نے کمیونٹی کو ہی خود کو مرکزی دھارے سے الگ کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ ’مسلمانوں کو خود احتسابی کرنی چاہیے۔ انھیں محض ایک ووٹ بینک کے طور پر برتاؤ کو مسترد کرنا چاہیے اور مذہبی رہنماؤں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مودی معاشرے کو اکٹھا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تاکہ لوگ خوشی سے ایک ساتھ رہیں اور وہ گمراہ نہ ہوں۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مودی کی قیادت میں انڈیا میں مسلمانوں کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ یہ ’یہ بہت اچھا ہے۔۔۔ ذہن آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔ مزید مسلمان بی جے پی میں شامل ہوں گے۔ حالات بہتر ہو رہے ہیں۔‘
یہ کہنا مشکل ہے کہ چیزیں (بہتر ہوتی) نظر آرہی ہیں یا نہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس مصیبت کے درمیان بہت سے مسلمان کہتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی اصلاح کے عمل سے گزر رہی ہے۔
’مسلمان اپنا جائزہ لے رہے ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مسلم ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی طرف سے مستحق ضرورت مند کمیونٹی کے طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک ٹھوس کوشش کی جا رہی ہے۔ اپنی طرف سے بہتری لانے کی کوشش قابل تعریف ہے لیکن اس سے حکومت پر ان کے اعتماد میں کمی بھی آ رہی ہے۔‘
آرزو پروین ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کی غریب ترین ریاست بہار میں تعلیم کے ساتھ غربت سے نکلنے کا راستہ بنا سکتی ہیں۔
ریما احمد کے بیٹے کے برعکس ان کے اپنے والد اس بات سے خوفزدہ تھے کہ جب ان کی بیٹی باہر نکلے گی تو لوگ کیا سوچیں گے۔
’انھوں نے کہا کہ ہم غربت کی چکی میں پس رہے تھے، تم ایک بالغ لڑکی ہو، گاؤں والے اس متعلق بات کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم اس طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔ خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہم اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتے۔‘
جب سے انھوں نے ہسپتال میں اپنی ماں کی مرنے سے متعلق تفصیلات سنیں تو تب سے آرزو کا خواب ڈاکٹر بننا ہے۔
لیکن یہ گاؤں کے خواتین کی اساتذہ کی انجینئر اور ڈاکٹر بننے کی کہانیاں تھیں جس چیز نے انھیں یقین دلایا کہ یہ ممکن ہے۔
انھوں نے پوچھا کہ ’میں کیوں نہیں؟‘ اور پھر ایک سال کے اندر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی خاتون بن گئیں۔
وہ گاؤں سے باہر کسی سرکاری سکول میں پڑھنے نہیں جاتی تھیں بلکہ رحمانی30، جو کہ ایک مفت کوچنگ سینٹر تھا جو سابق مسلم سیاست دان اور ماہر تعلیم مولانا ولی رحمان نے سنہ 2008 میں غریب اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
بہار کی دارالحکومت پٹنہ سمیت تین شہروں میں رحمانی30 میں اس وقت لڑکوں اور لڑکیوں سمیت 850 طالب علم زیر تعیلم ہیں۔
یہ طلبہ سکول کی کرائے کی عمارتوں میں رہتے ہیں اور انجینئرنگ، میڈیسن اور چارٹرڈ اکاؤنٹنسی میں قومی داخلہ امتحانات کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پہلی نسل والے ہیں جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان کے والدین پھل فروش ہیں اور مزدور ہیں۔
تقریباً 600 سابق طلبہ پہلے ہی سافٹ ویئر انجینئرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور دیگر پیشوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے چھ ڈاکٹر بھی ہیں۔
اگلے سال آرزو انڈیا کے 707 میڈیکل کالجوں کی طرف سے ایک لاکھ نشستوں کے لیے 20 لاکھ سے زیادہ امیدواروں میں سے ایک ہوں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں چیلنج کے لیے تیار ہوں۔ میں ایک گائناکالوجسٹ بننا چاہتی ہوں۔‘
محمد شاکر رحمانی30 میں تعلیم کو ایک بہتر زندگی کے ٹکٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو انھیں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
گذشتہ اپریل میں 15 برس کے محمد شاکر اور ان کے دوست نے پٹنہ کے لیے چھ گھنٹے بس پر سفر کیا۔ رستے میں ہندو تہوار کے جلوس کی وجہ سے مذہبی فسادات کی زد میں آنے والے ضلعے سے بھی گزرے۔ انھوں نے پانی کی بوتل اور چند کھجوریں لے کر یہ سفر طے کیا، ایک مسجد میں رات گزاری، رحمانی 30 کے داخلے کے امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہو گئے۔
شاکر نے کہا کہ ’میرے والدین بہت خوفزدہ تھے، انھوں نے کہا کہ مت جاؤ۔ میں نے ان سے کہا ’اب وقت آگیا ہے۔ اگر میں ابھی نہیں گیا تو مجھے نہیں معلوم کہ میرا مستقبل کیا ہوگا۔‘
اس نوجوان کے لیے، جو کمپیوٹر سائنسدان بننے کا خواب دیکھتا ہے، مذہبی کشیدگی کا خوف اس کی پریشانیوں میں کم تر درجے پر آتا ہے۔
’میں نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ میں امتحان دینے کے بعد واپس آؤں گا۔ رستے میں مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ آخر کچھ غلط کیوں ہو جائے؟ میرے گاؤں میں ہندو اور مسلمان مکمل ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔‘
اب انڈیا کے مسلمانوں کا مستقبل کا کیا بنے گا جو ذات پات، فرقوں اور مذہبی خیالات پر تقسیم ہیں۔
ضیاالسلام سر پر منڈلاتے خطرات کے احساس پر بات کرتے ہیں۔
’لوگ مسلم کمیونٹی کے لیے نوکریوں کی کمی اور مہنگائی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ صرف مہنگائی اور روزگار کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ زندگی کے حق کے بارے میں ہے۔‘
نوجوان مسلمانوں کی حالیہ یادداشتیں اسی طرح کے خوف کی بات کرتی ہیں۔
’تقریباً سبھی نے ایک ایسے ملک کا منتخب کیا ہے جہاں وہ آحری حل کے طور پر پناہ لے سکیں گے ۔ کچھ نے تو کینیڈا، امریکہ، ترکی یا برطانیہ میں آباد اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کیا ہے تا کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ ان ممالک میں پناہ حاصل کر سکیں۔
زیاد مسرور خان نے حال ہی میں اپنی کتاب سٹی آن فائر: اے بوائے ہڈ ان علی گڑھ میں لکھتے ہیں کہ ’یہاں تک کہ مجھ جیسا شخص، جو فرقہ وارانہ تشدد کے وقت بھی محفوظ محسوس کرتا ہے، اب اپنے وطن میں اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔‘
آگرہ میں ریما احمد بھی مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں۔
میں نے آغاز میں سوچا تھا کہ یہ حد سے زیادہ اسلاموفوبیا ہے اور یہ (وقت بھی) گزر جائے گی۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ بہت کچھ مستقل طور پر کھو گیا ہے اور جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا ہے۔‘