رفح: حماس کی عسکری طاقت کے ’آخری گڑھ‘ کی سٹریٹیجک اہمیت کیا ہے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں ایک بڑی زمینی کارروائی کے خدشات کے پیش نظر گزشتہ ہفتے بموں کی ترسیل روک دی تھی۔

اس اہلکار نے نام نہ ظاہر کیے جانے کی شرط پر امریکہ میں بی بی سی کے میڈیا پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ بموں کی اس کھیپ میں دو ہزار پاؤنڈ (970 کلو گرام) کے 1800 اور 500 پاؤنڈ وزنی 1700 بم شامل تھے۔

امریکی انتظامیہ کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے رفح میں شہریوں کی انسانی ضروریات پر امریکی خدشات کو ’مکمل طور پر دور‘ نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے تاحال اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق امریکہ کا دوٹوک موقف رہا ہے کہ اسرائیل کو رفح میں کوئی بڑا زمینی آپریشن شروع نہیں کرنا چاہیے جہاں اس وقت 10 لاکھ سے زیادہ لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں جن کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ رفح غزہ کی پٹی سے باہر نکلنے کا واحد راستہ ہے جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی لوگ پناہ لینے پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

تاہم سوموار کے دن اسرائیلی فوج نے ایک محدود آپریشن کا اعلان کیا جس کا مقصد حماس کی عسکری طاقت کا خاتمہ ہے۔

امریکی اہلکار کے مطابق اسرائیل اور امریکی انتظامیہ کے درمیان بات چیت میں جب واضح ہوا کہ اسرائیلی رہنما رفح آپریشن پر فیصلے کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ’ہم نے مخصوص ہتھیاروں کی منتقلی کی تجاویز پر ازسرنو غور کیا جن کو رفح میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام اپریل میں شروع کیا گیا۔‘

اہلکار کے مطابق امریکہ نے گزشتہ ہفتے اسلحے کی ایک کھیپ روکی جو 2000 پاؤنڈ وزنی 1800 بموں اور 500 پاؤنڈ وزنی 1700 بموں پر مشتمل تھی۔ ’ہم 2000 پاؤنڈ وزنی بموں کے گنجان آباد شہری علاقے میں استعمال اور اثرات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ابھی تک یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ اس کھیپ کے ساتھ کیا ہو گا۔‘

غزہ اسرائیل جنگ

رفح کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے اور اسرائیل کا حملہ تشویشناک کیوں ہے؟
یہ غزہ کی جنگ کا آخری محاذ ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے منگل کے روز مصر کی سرحد پر واقع فلسطین کی رفح کراسنگ کے مخصوص حصے پر آپریشنل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔

عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں کے دوران رات بھر آگ کے شعلے آسمان کو چھوتے رہے اور اس دوران اسرائیلی بمباری کی آوازیں بھی مسلسل سنائی دیتی رہیں۔

اسرائیلی فوج کے ان حملوں میں 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ‘حماس کے دہشت گرد’ ہیں۔

یہ ابھی تک ایک بہت ہی محدود اور محتاط آپریشن ہے اور تاحال رفح کراسنگ پر انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا وہ زمینی حملہ نہیں جس کے بارے میں عالمی طاقتوں نے متنبہ کیا ہوا ہے۔

فلسطینی شہر رفح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی شہری آبادی کے لیے ایک پناہ گاہ اور انسانی امداد کے لیے داخلے کا مرکز رہا ہے۔

غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریباً 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ علاقہ غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث یہ کئی دہائیوں سے بیمار افراد تک امداد اور مسافروں کی آمدورفت کے لیے ایک راستہ رہا ہے۔

رفح موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زائد ان فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ بن گیا تھا جو اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی حملے کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔

موجودہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک حملے سے ہوا جس میں اسرائیل کے دعوے کے مطابق تقریبا 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 240 یرغمال بنا لیے گئے۔

غزہ کی پٹی

غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جوابی حملے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے رفح کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 14 لاکھ افراد تک پہنچا دی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے ‘بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ’ قرار دیا ہے۔

تاہم جنگ سے پناہ لینے والوں کے لیے اس قصبے کی حیثیت پر اس وقت سوال اٹھنا شروع ہو گئے جب اسرائیل نے یہاں ایک آپریشن شروع کر دیا جس میں حماس کی جانب سے بنائے گئے دو اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا جبکہ ان حملوں میں درجنوں فلسطینی مارے گئے۔

اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ رفح سے شہریوں کے انخلا کے لیے تیار رہیں، تاکہ وہاں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جا سکے۔

اس اعلان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اسرائیل کے منصوبے کے خلاف تنقید اور مخالفت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوا۔ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ اسرائیل کی کوئی کارروائی ‘انسانی بحران اور تباہی’کا باعث بنے گی۔

یہ خدشات اس وقت مزید جڑ پکڑ گئے جب آئی ڈی ایف نے رفح میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو شہر کے مشرق میں ایک علاقہ خالی کرنے اور خان یونس اور المواسی کی طرف جانے کی ہدایات کے ساتھ کتابچے بھی تقسیم کرنا شروع کر دیے۔

اس کے کچھ گھنٹوں بعد اسرائیلی فوج نے اس شہر کے ایک علاقے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جسے اس نے ‘محدود آپریشن’ کے طور پر پیش کیا اور اگلے ہی روز یعنی منگل کو رفح اور مصر کے درمیان کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

تاہم، رفح اور وہاں ہونے والے واقعات کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے جو مقامی آپریشن سے بہت آگے ہے۔

’حماس کا آخری گڑھ‘

رفح سے نقل مکانی

اسرائیل کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حملوں سے قبل غزہ کے بہت سے باشندے پیر کو رفح سے نقل مکانی کر گئے
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر کی جانب سے فروری میں جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’حماس کو ختم کیے بغیر اور رفح میں حماس کی چار بٹالین چھوڑے بغیر جنگ کا مقصد حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘

اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس کے ہزاروں جنگجو اور اس کے بعض اہم رہنما رفح میں موجود ہیں۔ ساتھ ہی اسرائیل سمجھتا ہے کہ غزہ میں حماس کی چار بٹالین کے خاتمے کے بغیر حماس کی عسکری طاقت کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔

ایک اندازے کے مطابق حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد تقریباً دو لاکھ اسرائیلیوں کو سرحدی علاقوں میں موجود اپنے گھر چھوڑ کر ملک کے دور دراز محفوظ علاقوں میں جانا پڑا تاکہ وہ لبنان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کا نشانوں سے محفوظ رہ سکیں۔

ان میں سے بہت سے لوگ پہلے ہی سالہا سال سے غزہ کی جانب سے اسرائیل میں داغے جانے والے راکٹوں کے باعث متاثر ہو رہے تھے۔

حالیہ تنازع کے آغاز کے بعد سے متعدد سیاسی اور عسکری تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے نتن یاہو کے ہدف کو حاصل کرنا ناممکن یا انتہائی مشکل ہو گا اور اس کوشش کی بہت بڑی انسانی قیمت ادا کرنا ہو گی کیونکہ اس کے لیے انھیں حماس کی ان سرنگوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو غزہ کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نظر میں جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق کرنا مشکل ہے۔

اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوجی آپریشن میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سے شہری آبادی کو نقصان نہ پہنچے جبکہ حماس کی وزارت صحت کے مطابق تنازع کے آغاز سے اب تک تقریباً 34 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن کی اکثریت خواتین اور بچے ہیں۔

اسرائیلی یرغمالی

85 سالہ يوشويد لیفشتس ان دو خواتین یرغمالیوں کو چند ماہ قبل حماس کی قید سے رہائی ملی تھی
بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر نے خبردار کیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ رفح پر فوجی کارروائی سے اسرائیل کیا حاصل کر سکتا ہے۔

‘غزہ میں گزشتہ پانچ ماہ سے جاری تباہ کن تنازع اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں ناکام رہا ہے۔ آخری بار غزہ سے یرغمالیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو نومبر میں رہا کیا گیا تھا اور قطر اور مصر کے درمیان بات چیت کے بعد ایک تبادلے کے طورپر عمل میں آیا تھا۔

فرینک گارڈنرکے مطابق اسرائیلی فوج کا اندازہ ہے کہ رفح میں حماس کی چار بٹالین زمین کے اوپر اور نیچے سرگرم ہیں اور وہ اپنے منصوبے کے مطابق انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔

مذاکرات میں تعطل
سیاسی طور پر رفح میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے قطر اور مصر کی ثالثی میں حماس کے ساتھ کئی مہینوں سے جنگ بندی کے ساتھ ساتھ کچھ مغوی اسرائیلیوں اور اسرائیل میں زیر حراست فلسطینیوں کی رہائی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔

سوموار کے روز حماس نے اعلان کیا کہ اس نے جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے جس سے غزہ کے باشندوں میں خوشی اور اطمینان کے تاثرات دیکھے گئے۔

تاہم حماس کی جنگ بندی کی تجویز کا درست دائرہ واضح نہیں ہے، کیونکہ نتن یاہو کی حکومت واضح کر چکی ہے کہ وہ اسرائیل کی توقعات کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور اس سلسلے میں ایک مذاکراتی کمیشن کو قاہرہ بھیجا ہے۔

تاہم یہ ہفتہ مذاکرات میں پیش رفت کے بغیر گزر گیا۔

غزہ میں جنگ کے علاوہ، رفح میں اسرائیل کی طرف سے فوجی کارروائی نتن یاہو حکومت اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر سکتی ہے، کیونکہ صدر جو بائیڈن نے وہاں موجود شہری آبادی کے تحفظ کے لیے پہلے کسی منصوبے کے بغیر جارحانہ کارروائی کو مسترد کر دیا ہے۔

رفح میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی حکومت کی کوششوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

ایک اور اہم رشتہ جو رفح پر حملے سے خراب ہو سکتا ہے وہ ہے اسرائیل اور مصر کے درمیان، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے والی پہلی عرب ریاست تھی۔

قاہرہ مصری اخوان المسلمون کی ایک شاخ کے طور پر شروع ہونے والی تنظیم حماس کے ارکان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور انھیں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں، بین الاقوامی برادری کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اس شہر میں پناہ لینے والے لاکھوں فلسطینیوں کو مصر کی سرحد کی طرف اسرائیلی جارحیت کے ذریعے دھکیل دیا جائے گا۔

اگرچہ اسرائیل نے اس آپریشن کو رفح میں حماس کے مخصوص اہداف کے خلاف ایک محدود حملے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن اس میں اضافے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

اسرائیلی جارحیت نے اردن کو بھی چوکس کر دیا ہے، جو مصر کے بعد دوسرا عرب پڑوسی ہے جس کے ساتھ اسرائیل نے سفارتی تعلقات قائم کیے۔

وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن کے ساتھ ایک ملاقات میں، شاہ عبداللہ دوم نے خبردار کیا کہ رفح پر اسرائیلی جارحیت تنازعات کو خطے میں پھیلنے کا سبب بن سکتی ہے اور انھوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ‘نئے قتل عام ‘کا باعث بن سکتا ہے۔

Share.

Leave A Reply