وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ عدالت کا احمد فرہاد گمشدگی کیس میں یہ کہنا کہ افواجِ پاکستان کے سینیئر افسران مطمئن نہ کر پائے تو وزیرِ اعظم اور پوری کابینہ کو عدالت میں بٹھایا جائے گا یہ عدالتوں کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ میڈیا میں احمد فرہاد کی مبینہ گمشدگی کیس سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جو ریمارکس رپورٹ ہوئے ہیں ان سے تکلیف ہوئی ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے احمد فرہاد کی مبینہ گمشدگی سے متعلق دائر درخواست پر سیکریٹری دفاع کو منگل کے روز ذاتی حثیت میں پیش ہو کر رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے جبکہ سیکرٹری داخلہ کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔
کارروائی کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جبری گمشدگیوں کے معاملے میں وزیر اعظم کو بھی طلب کیا گیا لیکن بظاہر اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
انھوں نے کہا کہ صرف اس حوالے سے پیش رفت یہ ہوتی ہے ک جب وزیر اعظم کو طلب کیا جاتا ہے تو اس روز مغوی برآمد ہو جاتا ہے یا پھر گھر پہنچ جاتا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’جبری گمشدیوں کا مسئلہ آج کا نہیں ہے، پچھلی چار دہائیوں سے پاکستان کو یہ مسئلہ درپیش ہے اس کی سب سے بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں جنگ تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان نے اختیارات استعمال کرنے کے اصول وضع کیے ہیں۔ انتظامیہ کا کام ہے کہ لا اینڈ آرڈر قائم رکھے اور لوگ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں اگر ان کے حقوق سلب ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب کسی کی گمشدگی کی پٹیشن دائر ہوتی ہے تو عدالت جواب طلب کرتی ہے اور حکومت کا کام ہے کہ سنجیدگی سے اس کا جواب دے، اگر معاملہ حل نہیں ہوتا تو اس کا پچاس، ساٹھ سال سے ایک ہی قانون ہے کہ پھر پولیس کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے کہ ان کو برآمد کیا جائے اور اس بارے میں تفتیش کی جائے۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا ’احمد فرہاد کی گمشدگی کے معاملے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق احمد فرہاد ان کے کسی ادارے کی تحویل میں نہیں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ’کیونکہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے تو پولیس کو جس طرح کی معاونت چاہیے، وفاقی حکومت مہیا کرے گی۔
’اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ مسئلہ اس طرح سے حل نہیں ہو گا، سیکریٹری آ جائیں، اگر وہ مطمئن نہ کر پائے تو افواجِ پاکستان کے سینیئر افسران آ کر کھڑے ہوں۔ اگر وہ نہیں مطمئن کر پائے تو ہم وزیر اعظم اور پوری کابینہ کو یہاں پر بٹھائیں گے، یہ عدالتون کا مینڈیٹ نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 248 وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو عدالتی کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی باتیں کرنا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں بٹھا کر کروایا جائے گا یہ پارلیمان اور کابینہ کے آئینی کردار کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ عدالتوں کا کام آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے۔ ’کیا ہی اچھا ہو کہ جو بھی حکم ہو عدالتی آرڈر کے ذریعے پاس کر دی جائے۔‘
احمد فرہاد کی اہلیہ نے بی بی سی کو ان کی گمشدگی کے بارے میں کیا بتایا؟
مبینہ طور پر جبری طور پر گمشدہ ہونے والے شاعر احمد فرہاد کی اہلیہ عین نقوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے شوہر کو گذشتہ دو سالوں سے سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور انھیں کہا جارہا تھا کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے خلاف لکھنا چھوڑ دیں ورنہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
عین نقوی کا کہنا تھا کہ اس عرصے کے دوران ان کے شوہر کو تین ٹی وی چینلز سے نکالا گیا تھا۔ انھوں دعویٰ کیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے وابسطہ لوگ ان ٹی وی چینلز کے مالکان پر دباو ڈالتے تھے کہ وہ احمد فرہاد کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ ان کے بارے میں سوشل میڈیا لکھنا بند کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے شوہر یہ بات نہیں مانتے تو انھیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔
فرہاد کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ہفتہ قبل بجلی اور اّٹے کی قیمتوں کے معاملے پر ان کے شوہر نے ذمہ داران کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ کہتہ ہیں کہ اس کے بعد 17 مئی کو ان کے شوہر کسی کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ گھر لوٹے اور گھنٹی بجائی تو اتنے میں کچھ نامعلوم افراد وہاں پہنچ گئے اور احمد فرہاد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔
عین نقوی کا کہنا تھا کہ دو روز قبل احمد فرہاد کے موبائیل نمبر سے انھیں کسی نامعلوم شخص کی واٹس ایپ کال ائی تھی۔ کال کرنے والے نے انھیں کہا کہ اگر وہ اپنی درخواست واپس لے لیں تو ان کا شوہر اگلے دو روز میں گھر پہنچ جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے انکار پر اس شخص نے کال منقطع کردی اور پھر دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ احمد فرہاد کی گمشدگی کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوئی بھیر میں درج کیا گیا تھا۔