لاہور کی ضلع کچہری نے سائبر کرائم کیس میں کالم نگار اور تجزیہ کار اوریا مقبول جان کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج سنایا جائے گا۔
سینئر صحافی اوریا مقبول جان کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم کے مقدمے کی سماعت لاہور کی ضلع کچہری میں ہوئی۔
کالم نگار اوریا مقبول جان کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت پیش کیا گیا تھا، انہیں ایف آئی آر اہلکار جوڈیشنل مجسٹریٹ کی عدالت میں لے کر آئے۔
دوران سماعت ایف آئی اے نے اوریا مقبول جان کا مزید دس دن کا جسمانی ریمانڈ مانگا، جس پر عدالت نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کیا مٹیرئیل ہے، جس پر آپ ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ اوریا مقبول جان کے سوشل میڈیا سے ہم نے بہت کچھ ریکور کیا ہے، اسی دوران اوریا مقبول جان نے عدالت میں بتایا کہ میں خود ہائیکورٹ کا وکیل ہوں۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ایک واٹس ایپ گروپ بنا ہوا تھا جس میں ریاست کے اعلیٰ افسران کے خلاف ایکٹویٹی نظر آئی ہے، انہوں نے ریاست کے خلاف بہت کچھ بولا ہے۔
عدالت میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ انکے سوشل میڈیا اکاونٹ سے اینٹی سٹیٹ جوڈیشری اور اعلی افسران کے خلاف پوسٹیں موجود ہیں۔
سرکاری وکیل نے دوران سماعت عدالت میں بتایا کہ ان کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے جس سے اس طرح پوسٹوں کو آگے بھجیتے ہیں، ایک ایجنڈے کے تحت اوریامقبول جان کام کر رہے ہیں۔
عدالت سے استدعا میں سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں اس لیے تفتیش کے لیے انکا مزید ریمانڈ چاہیے، انکے گروپ کے دو افراد کو نوٹسز بھی جاری کیے ہیں۔
سماعت مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو آج ہی سنایا جائے گا، ایف آئی اے اہلکار اوریا مقبول جان کو کہچری سے لیکر روانہ ہوگئے۔
واضح رہے کہ 21 اگست کو رات گئے اوریا مقبول جان کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
22 اگست کو ضلع کچہری لاہور نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم مقدمے میں کالم نگار اور تجزیہ کار اوریا مقبول جان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عمران عابد نے محفوظ فیصلہ سنایا تھا، عدالت نے ہدایت دی تھی کہ آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر رپورٹ عدالت پیش کریں۔
قبل ازیں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے اوریا مقبول جان کو ضلع کچہری میں پیش کیا، اس موقع پر ان کے وکیل میاں علی اشفاق بھی ضلع کچہری پہنچے تھے۔
ایف آئی اے نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی، جس پر وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ اوریا مقبول نے کسی کی ادرے کی توہین نہیں کی۔
میاں علی اشفاق نے مؤقف اپنایا تھا کہ اوریا مقبول پر جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج ہوا، ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں، انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔
وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے متن میں جو لکھا گیا ہے وہ تو ہتک عزت کا دعویٰ بنتا ہے۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے تمام الزامات کو درست قرار دیا تھا، وکیل ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ اوریا مقبول جان تفتیش میں تعاون نہیں کررہے، یہ کورٹ آف لاء ہے یہاں تقریریں نہیں بلکہ قانون کی بات ہونی چاہیے۔