بلوچستان میں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں، دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، محسن نقوی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، یہ دہشت گرد پولیس کے ایک اسٹیشن ہاؤس افسر( ایس ایچ او) کی مار ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ یہ ایک ایس ایچ او کی مار ہی رہیں گے۔

کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے جو فیصلہ کریں گے، وفاقی حکومت اس کی حمایت کرےگی، وزیراعلیٰ بلوچستان کو جو بھی سپورٹ چاہیے وہ دیں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ دشمن نے چھپ کر حملہ کیا، کوئی مسئلہ نہیں ہے، سامنے آتے، مقابلہ کرتے، بلوچستان میں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، بلوچستان میں جو ہوا،اس پر ہم غمگین ہیں، یہ ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات سے وہ ہمیں ڈرا سکتے ہیں، انہیں بہت جلد اچھا پیغام مل جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت جاگی ہوئی ہے، آج آپ کا دشمن بھی کہہ رہا ہے کہ آج جس طرح کا رد عمل ہے، ایسا پہلے کبھی صوبائی حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔

محسن نقوی نے کہا کہ یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار رہیں گے، ان کے لیے ہمیں کوئی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہماری فورسز جانتی ہیں، یہ بات میں نے محاورتا کی ہے کہ ایک ایس ایچ او کارروائی کرے گا، بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے، دہشت گرد کسی چھوئے علاقے میں کارروائی کرتے ہیں، کتنی بھی فورس تعینات کرلیں، ہر جگہ نہیں کرسکتے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمیں ان کے پیچھے جانا ہے جو یہ تمام حکمت عملی بنا رہے ہیں، منصوبہ بندی کر رہے ہیں، آئندہ آنے والے دنوں میں دیکھیں گے کہ ان سب کا بندوبست ہوگا۔

اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ حملے کے بعد جوابی کارروائی کے لیے جاتے ہوئے کیپٹین شہید ہوئے، وہ اپنے ماں، باپ کے واحد صاحبزادے تھے، ان کی 10ماہ کی بیٹی تھی، ان کے والد کینسر کے مریض ہیں، انہوں نے بلوچستان کے لوگوں کے لیے اپنی جان قربان کی، متاثرہ تمام خاندان ہمارے خاندان ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 4ہزار کلو میٹر ہماری سڑکیں ہیں، ان میں سے کسی ایک انچ کو ڈھونڈتے ہیں، وہ ہمارے معاشرے میں رہ رہے ہیں، ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ سڑک کی ریکی کرنے آرہا ہے یا کوئی مسافر ہے، جب ہم ان کو روکتے ہیں تو بھی آپ کو مسئلہ ہوتا ہے، وہ ریکی کرتے ہیں، آدھے گھنٹے کے لیے آتے ہیں، سب سے کمزور اہداف پر کارروائی کرتے ہیں، بندوں کو بسوں سے اتار کر 100 میٹر دور لے جا کر مارتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جوابی کارروائی کے لیے طریقہ کار موجود ہے، اس وقت بھی ان دہشت گردوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے، ان کے خلاف ہر قمیت پر کارروائی کی جاڑے گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک دشمنوں کےساتھ کوئی بات نہیں ہوگی، دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اس دہشت گردی کو ختم کرنےکا وقت آپہنچا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ ملک دشمنوں کےساتھ کوئی بات نہیں ہوگی، دہشت گرد پاکستان اور چین میں فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اس دہشت گردی کو ختم کرنےکا وقت آپہنچا، اس سلسلے میں دی گئی قربانیاں رائیگاں نہیں جائے گی، اس سلسلے میں تمام وسائل مہیا کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 14 اہلکاروں سمیت 50 افراد کو قتل کردیا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔

ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات میں نامعلوم مسلح افراد نے مستونگ، قلات، پسنی اور سنتسر میں لیویز اور پولیس تھانوں پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔

سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا۔

قلات کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) دوستین دشتی کے مطابق ضلع قلات میں رات بھر ہونے والے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق گزشتہ رات بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردوں کی جانب سے بزدلانہ حملے کیے گئے، حملوں کا مقصد بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنا تھا۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی موثر اور بروقت کارروائی میں 21 دہشتگرد ہلاک ہوئے، آپریشن کے دوران پاک فوج کے 10 جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 4 اہلکار بھی شہید ہوئے۔

Share.

Leave A Reply