سندھ اور پنجاب سے گزشتہ ماہ اگست میں کپاس کی پیداورا میں 60 فیصد تک کی خطرناک کمی پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جو کہ غیر ملکی منڈیوں سے زیادہ غیر ملکی زر مبادلہ کی قیمت پر اپنی لنٹ کی ضروریات کو پورا کرنے پر مجبور ہیں۔
پنجاب کی کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس) اور پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے 3 لاکھ سے زائد بیلز کا فرق صنعت کے مستقبل کی خریداری کی حکمت عملی کو الجھن میں ڈال رہا ہے۔
پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 31 اگست تک تقریبا 12 لاکھ 26 ہزار بیلز ملک بھر کے گنرز فیکٹریوں تک پہنا، جو کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں پیدا ہونے والی 30 لاکھ 40 ہزار بیلز کے مقابلے میں 60 فیصد کی تیز کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
کپاس کی پیداوار میں اس بڑی کمی کو مختلف مسائل کی وجوہات قرار دیا جا رہا ہے، جن میں ابتدائی بوائی کی شرح میں کمی، جون اور جولائی کے دوران طویل گرمی کی لہروں کی وجہ سے پھلوں کا جھڑنا، اگست کے مہینے میں موسلادھار بارشیں، فصلوں کو کھانے والی مکھیوں اور گلابی کپاس کے کیڑوں کے حملے، فصل کی کم ہوتی ہوئی زمین، مصالحتی مفادات کی طرف سے کپاس کی مارکیٹ میں ہیرا پھیری، فصل کی منافعیت میں کمی اور تحقیق و ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے سپورٹ کی کمی شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل سی آر ایس ڈاکٹر عبدالقیوم نے کہا ان کا ادارہ کپاس کی پیداوار کا تخمینہ فارم کی سطح پر لگاتا ہے، جو کپاس کی گانٹھوں کے سائز اور چنائی کے تناسب پر مبنی ہوتا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس سیزن میں گانٹھ کا وزن 3.34 گرام ریکارڈ کیا گیا ہے، جو کہ پچھلے سال 3.29 گرام تھا، یعنی وزن میں 1.52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق اب تک کپاس کی فصل کے 46 فیصد رقبے سے چنائی کی جا چکی ہے، جبکہ گزشتہ سال اس وقت تک 63 فیصد فصل کی چنائی مکمل ہو چکی تھی۔