“ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان”
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کردیا۔
“رابطہ کمیٹی نے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کی توثیق کردی”
قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گزشتہ رات ہونے والے معاہدے کی توثیق کردی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نسرین جلیل نے کراچی میں پارٹی کے مرکز کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔
نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ:
‘معاہدے کی تفصیلات شام 4 بجے پریس کانفرنس میں سامنے آئیں گی۔
واضح رہے کہ:
گزشتہ رات گئے پارٹی نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ ملاقات کی تھی جس نے دارالحکومت میں کافی ہلچل مچادی تھی۔
ابتدائی طور پر خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔
انہوں نے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی۔
ملاقات کے دران مشترکہ اپوزیشن نے کوشش کی کہ:
‘ایم کیو ایم فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان کردے۔
لیکن!
ایم کیو ایم پاکستان نے اتنی رات گئے کوئی حتمی بیان دینے سے گریز کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دن اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی۔
ایم کیو ایم پی کے ترجمان نے کہا تھا کہ:
معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، پارٹی اپنے فیصلے کا اعلان اس وقت ہی کرے گی جب اس کی توثیق رابطہ کمیٹی سے ہو جائے گی۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان معاہدہ نے حتمی شکل اختیار کر لی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ:
‘پیپلز پارٹی کی سی ای سی، ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی مجوزہ معاہدے کی توثیق کے بعد اس کی تفصیلات سے کل شام 4 بجے باضابطہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
قبل ازیں خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔
بعد ازاں حزب اختلاف کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول، مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف بھی رات 2 بجے کے قریب وہاں پہنچے تھے تاکہ حکومتی اتحادی کو رخ بدلنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
‘اس بات کی تصدیق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی تھی۔
اپنے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ:
متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ ہو گیا، رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم اور پی پی پی کے سی ای سی معاہدے کی توثیق کریں گے، اس کے بعد ہم کل پریس کانفرنس میں میڈیا کے ساتھ تفصیلات شیئر کریں گے، پاکستان کو مبارک ہو۔
رات بھر ٹی وی چینلز پر اجلاس کے ممکنہ نتائج کی خبریں چلتی رہے تھیں۔
متعدد آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا تھا کہ:
اپوزیشن کے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم-پی نے ان کے ساتھ شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے تو کچھ چینلز نے خالد مقبول صدیقی اور وسیم اختر کے حوالے سے کہا کہ کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔
اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ:
اجلاس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی سینئر قیادت کی موجودگی میں سندھ کے انتظامی اور بلدیاتی امور کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایم کیو ایم-پی کے درمیان مستقبل کے معاہدے سے متعلق بعض شقوں پر غور کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ:
‘معاہدہ صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کے ساتھ ہونا ہے اور اگر رابطہ کمیٹی نے منظور کرلیا تو مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
خیال رہے کہ:
اگر ایم کیو ایم پی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتی ہے تو یہ ان کے حق میں ترازو کو بڑی حد تک جھکا دے گا۔
کچھ اندازوں کے مطابق:
حکمران اتحاد کے پاس ارکان کی تعداد 171 ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے واحد قانون ساز نے عدم اعتماد کے ووٹ میں غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنی صفوں میں شامل ہونے کے بعد اپوزیشن کے پاس 169 ارکان موجود ہیں۔
اگر ایم کیو ایم پی کے 7 اراکین اپوزیشن کی جانب بڑھ جائیں تو یہ غیر یقینی توازن آسانی سے جھک سکتا ہے۔