آرٹسٹک پیروں کے لیے ایک نظم ذرا گوتم کے سدھے پاؤں بھک جانے دو!

Pinterest LinkedIn Tumblr +

آرٹسٹک پیروں کے لیے ایک نظم
ذرا گوتم کے سدھے پاؤں بھک جانے دو!

محمد خان داؤد

گیت کو اُٹھنے دو
اور ساز کو چھڑ جانے دو
خاموشی کو چھونے دو
لفظوں کے نرم تاروں کو
اورلفظوں کو خاموشی کی غزل گانے دو
کھول دو کھڑکیاں سب
اور اُٹھا دو پردے
نئی ہوا کو ذرا بند گھر میں آنے دو
چھت سے ہے جھانک رہی کب سے چاندنی کی پری
دئیا بجھا دو آنگن میں اتر آنے دو
فضا میں چھانے لگی ہے بھار کی رنگت
گلاب کو کھلنے دو، چمپا کو مہک جانے دو
ذرا سنبھلنے دو میرا کی تھرکتی پائل
ذرا گوتم کے سدھے پاؤں بھک جانے دو
ہنستے ہونٹوں کو ذرا چکھنے دو اشکوں کی نمی
اور نم آنکھوں کو ذرا پھر سے مسکرانے دو
دل کی باتیں ذراجھرنے دو ہار سینگھاروں سے
بنا باتوں کے کبھی آنکھ کو بھر آنے دو
رات کو کہنے دو کلیوں سے راز کی باتیں
گلوں کے ہونٹوں سے ان رازوں کو کھل جانے دو
ذرا زمیں کو اب اُٹھنے دو اپنے پاؤں پر
ذرا آکاش کی بانہوں کو بھی جھک جانے دو
کبھی مندر سے بھی اُٹھنے دو اذان کی آواز
کبھی مسجد کی گھنٹیوں کو بھی بج جانے دو
پنجرے کے طوطوں کو دھرانے دو جھوٹی باتیں
اپنی مینا کے تو پر کھول کے چہچہانے دو
اُن کو کرنے دو مردہ رسموں کی بربادی کا غم
ہمیں نئی زمیں نیا آسماں بنانے دو
ایک دن ان کو اُٹھا لیں گے ان سر آنکھوں پر
آج ذرا خود کے پاؤں کو تو سنبل جانے دو
ذرا ساگر کو برسنے دو بن کر بادل
اور بادل کی ندی ساگر میں کھو جانے دو
ذرا چندا کی نرم دھوپ میں سیکنے دو بدن
ذرا سورج کی چاندنی میں بدن کو بھیگ جانے دو
اُس کو کھونے دو جو کہ پاس کبھی تھا ہی نہیں
جس کو کھویا ہی نہیں اسے پھر سے پانے دو
گیت کو اُٹھنے دو ساز کو چھڑ جانے دو
ارے ہاں ہاں ہم ہوئے لوگوں کے لیے دیوانے
اب لوگوں کو بھی ہوش میں آنے دو
یہ ہے سچ بہت کڑوی ہے مہ اس ساقی کی
رنگ لائے گی سانسوں میں اتر جانے دو
چھلکیں گے جام جب چھائے گی خماری گھٹا
ذرا میخاروں کے پیمانوں کو تو سھبل جانے دو
ذرا ساقی کے طیور تو بدل جانے دو
نہ رہے مہ خانا،نہ مہ خوار،نہ ساقی،نہ شراب
نشے کو ایک ایسی بھی حد سے گزرجانے دو
اس کو گانے دو اپنا گیت میرے ہونٹوں سے
اور مجھے اس کے سناٹے کو گنگنانے دو

Share.

Leave A Reply