دھرتی کے گمنام ہیرو ڈاکٹر اصغر دشتی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

دھرتی کے گمنام ہیرو

ڈاکٹر اصغر دشتی

یہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ مطالعہ پاکستان اور تاریخ عام جیسے مضامین کی درسی کتابوں میں وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والے دھرتی کے فرزندوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انفرادی سطح پر بہت سے لوگ ان حریت پسندوں کے کارناموں اور ناموں سے واقف ہوں تاہم بحیثیت مجموعی قومی سطح پر ان آزادی کے متوالوں کو نئی نسل سے روشناس کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی ہے۔ یہ بطل حریت آج پاکستانی سماج کے اجنبی نام ہیں۔ یہ وہ گمنام ہیرو ہیں جن کے بارے میں آج کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا۔ یہ جدوجہد آزادی کے وہ مسافر ہیں جن کا دن نہیں منایا جاتا۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ اہل پاکستان عرب محمد بن قاسم ، افغان محمود غزنوی اور وسطی ایشیائی مغلوں کو تو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن اپنی ہی دھرتی کے فرزندوں کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں۔
برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے والے بلوچ سردار دل مراد خان کھوسہ جنہیں جزائر انڈمان میں کالا پانی کی سزا دی گئی تھی ان سے پاکستانی عوام کتنی واقف ہے؟
فاتح گلگت کمانڈر مرزا حسن خان جنہوں نے مہاراجہ کی جموں و کشمیر اسٹیٹ فورس کے خلاف بغاوت کر کے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزاد کروا کر پاکستان میں شامل کرنے کی راہ ہموار کی آج ان کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان جہاں ہر مضمون میں کشمیر کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن مرزا حسن خان کی کامیابیوں کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔
بونیر (پختون خواہ) کے سعید اللہ خان عرف سرتور فقیر کو بھی ہماری تاریخی و تدریسی کتب میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ سرتور فقیر نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مالاکنڈ میں برطانوی افواج کے خلاف جنگ لڑی مگر جناب کون سعید اللہ خان؟

بلوچ شیر زال گل بی بی بلوچ جس نے سفاک و ظالم جنرل ڈائر کے مقابلہ میں بحیثیت عورت قبائلی لشکر کی سربراہی کی۔ جس کی بہادری کا تذکرہ جنرل ڈائر نے اپنی کتاب “The Raiders of the Sarhad” میں کیا ہے۔ کیا پاکستان میں انگریز سامراج کے خلاف لڑنے والی اس بہادر عورت کا کوئی مقام ہے؟ کیا گل بی بی بلوچ، بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم شائستہ اکرام اللہ، شیلا آئرن پینٹ (رعنا لیاقت علی خان)، بیگم سلمیٰ تصدق حسین اور لیڈی نصرت عبداللہ ہارون جتنی عزت و تکریم کی بھی حقدار نہیں؟

وڈھ، خضدار بلوچستان کا نورا مینگل جس نے نو سال تاج برطانیہ کے خلاف جھالاوان کی پہاڑیوں میں گوریلا جنگ لڑی اور بالآخر قید ہو کر دوران اسیری برٹش جیل میں وفات پاگئے (یامار دئیے گئے)۔ نئی نسل کے کتنے پاکستانی اس ”شیر جھالاوان“ کے نام سے واقف ہیں؟
نورا مینگل کا تعلق اگر موجودہ انڈیا سے ہوتا تو اب تک ان کے کارناموں اور گوریلا جنگ کی داستانوں پر نہ جانے کتنی فلمیں بنتیں۔ ان کی یاد میں نہ جانے کتنے مجسمے بنائے جاتے۔
”مرویسوں مرویسوں۔۔۔ سندھ نہ ڈیسوں“کا نعرہ لگانے والے ٹالپر بلوچوں کے سپریم کمانڈر جنرل ہوش محمد قمبرانی عرف ہوشو شیدی جس نے سرچارلس نیپیئر کی افواج سے لڑتے لڑتے سندھ دھرتی پر اپنی جان نچھاور کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔ کیا شہیدِ سندھ کو ہمارے سرکاری نصاب میں شمالی ہندوستان کے کسی سیاسی رہنما جتنی جگہ بھی مل سکتی ہے؟ کیا موجودہ پاکستان میں ان کی قربانی کوئی معنی یا مطلب رکھتی ہے؟
جنگ آزادی میں 19 سال کی عمر میں پھانسی چڑھنے والے سکھر کے ہیموں کا لانی کا تذکرہ مطالعہ پاکستان یا تاریخ عام کے کس باب میں ہے؟
برطانوی قبضہ کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنے والے کراچی کے اوتار کرشن ہنگل (شعلے فلم کے رحیم چاچا) کے بارے میں کتنے لوگ جانتے ہیں؟
انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ژوب (بلوچستان) کے پالے خان کو مطالعہ پاکستان میں کتنی جگہ دی گئی ہے؟
وطن یا کفن کا نعرہ لگاکر انگریز کی جیل میں موت کو گلے لگانے والے سندھ دھرتی کے فرزند سورھیہ بادشاہ کے حوالہ سے اردو کی کتابوں میں کوئی سبق ہے؟
برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جبری فوجی بھرتی کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے والے پنجاب کے شہید رائے احمد خان کھرل کا تذکرہ پرائمری، سیکنڈری یا کالج سطح کی کون سی درسی کتب میں ہے؟
انگریزوں کی قبضہ گیریت کے خلاف دانشورانہ اور سیاسی جدوجہد کرنے والے سندھ کے حشو کیول رامانی کی زندگی اور ادبی کارناموں کو سندھی کی کون سی تدریسی کتب میں جگہ دی گئی ہے؟
جنگ آزادی میں انگریزی فوج سے بغاوت کے جرم میں توپ سے باندھ کر اڑائے جانے والے لیاری کراچی کے اﷲ داد بلوچ سے کتنے لوگ واقف ہیں؟
کارونجھر،تھر پارکر کے پہاڑوں میں انگریز سامراج کو للکار کر پھانسی چڑھنے والے آزادی پسند روپلو کولہی کی قربانی کو کیا معاشرتی علوم کی کتابوں میں جگہ ملے گی؟

Share.

Leave A Reply