اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔
پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔
تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔
سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2028 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔
اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔
اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔
نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے ۔چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔
البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔
اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔
میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔
ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔
کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )