آٹھ فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے آزاد امیدواران کے ذریعے دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل کیں جس کے بعد اس کے روپوش رہنما منظر عام پر آنے لگے۔ ان میں سے کئی لوگ نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔
مگر پھر ان رہنماؤں نے عدالتوں سے اپنے خلاف قائم مقدمات میں ضمانتیں حاصل کیں اور اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے میڈیا کے کیمروں کے سامنے بھی آئے۔
ان رہنماؤں میں سرِ فہرست تو پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب ہیں جو کافی عرصے سے منظر پر نہیں تھے مگر آٹھ فروری کے بعد وہ باقاعدہ ٹی وی چینلز پر نمودار ہونا شروع ہوئے اور اپنی جماعت کے دفاتر جا کر وہاں اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
وہ شہباز شریف کے خلاف تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے وزیراعظم کے امیدوار بھی بنے اور انھوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر حکومت پر خوب تنقید بھی کی۔
خیبر پختونخوا سے علی امین گنڈا پور روپوشی ختم کر کے اور عدلیہ سے ریلیف حاصل کرنے کے بعد وزارت عظمیٰ کی نشست پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان کے متعدد ساتھی بھی اب عام انتخابات کے بعد منظر عام پر آ گئے ہیں۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فیصل جاوید بھی تحریک انصاف کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جن پر نو مئی سے متعلق واقعات پر مقدمات قائم تھے۔
مگر جب انھوں نے سرینڈر کیا تو انھیں بھی عدالتوں سے ریلیف ملا۔ عمر ایوب سمیت تحریک انصاف کے ان رہنماؤں نے پارلیمنٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمات ختم کرنے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم اب پاکستانی فوج کی طرف سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں کسی بھی طرح سے ملوث افراد سے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
فوج نے اپنے اوپر عائد کردہ دھاندلی کے الزامات کی بھی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے مینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا۔ ’اس سے زیادہ افواج پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فوج کے اس بیان کی روشنی میں تحریک انصاف اور حکومت کے لیے کیا مشکلات اور چیلنجز سامنے آئے ہیں۔