آتش بازی کرتے 12 سالہ فلسطینی لڑکے کی اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت: ’مجھے لگا میرا بیٹا کھیلتے ہوئے گر پڑا ہے‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اپنی زندگی کے آخری چند لمحات میں 12 سالہ فلسطینی لڑکے رمی ہمدان نے ہوائی (آتش بازی) کو آگ لگائی اور اسے اپنے سر کے اوپر بلند کیا۔

اس سے بعد ایک کے بجائے دو پٹاخوں کی آواز سُنائی دی۔ پہلا ایک اسرائیلی پولیس افسر کی پستول سے نکلنے والی گولی کا اور دوسرا رمی ہمدان کی ہوائی (آتش بازی) کا جب وہ آگ لگائے جانے کے بعد ہوا میں بلند ہوئی۔

رمی 12 سالہ فلسطینی لڑکا تھا جو مشرقی مقبوضہ یروشلم میں واقع پناہ گزیں کیمپ ’شوافت‘ میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ اس پناہ گزین کیمپ میں 16 ہزار افراد رہتے ہیں۔

منگل کی رات رمی اپنے بھائی اور دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کھیل رہا تھا۔ ان بھائیوں اور ان کے دوستوں کے پاس آتش بازی کا سامان تھا۔ رمی کے ہاتھ میں موجود ہوائی نے جیسے ہی آگ پکڑی تو رمی نے اسے اپنے جسم سے دور کیا اور بلارادہ اس ہوائی کا رُخ قریب تعینات اسرائیلی سرحدی پولیس کی جانب ہو گیا۔

اس واقعے کی ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ آتش بازی سے پٹاخہ پھوٹنے سے پہلے ہی کچھ ہی فاصلے پر موجود پولیس اہلکاروں کی جانب سے رمی کو گولی مار دی گئی۔ ایک بیان میں پولیس کا کہنا ہے کہ ’پولیس والوں کی جانب آتش بازی چلانے والے مشتبہ شخص پر صرف ایک گولی چلائی گئی۔‘

پولیس نے اب تک 12 سالہ رمی کی لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی۔ پولیس نے رمی کو گولی لگنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا تاہم خاندان کا کہنا ہے کہ رمی کو دل پر گولی ماری گئی۔

رمی کے بڑے 19 سالہ بھائی، جو موقع پر موجود تھے، نے بتایا کہ گولی چلنے کے فوراً بعد وہ دوڑ کر اپنے بھائی کی جانب لپکے لیکن ’کوئی امید نہیں تھی، اور وہ مر چکا تھا۔‘

رمی کی 50 سالہ والدہ راویہ اُس وقت اپنے گھر کے اندر تھیں جب انھیں بھی گولی چلنے کی آواز ائی۔ انھوں نے کسی کو اپنا نام پکارتے سُنا جسے سُن کر وہ دوڑتی ہوئی گھر کے دروازے کی طرف لپکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس علاقے میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں یا مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن گولی چلنے یا گرینیڈ کی آواز عموماً نہیں آتی۔‘

’گھر کے باہر میں نے رمی کی لاش کو زمین پر پڑے دیکھا۔ میں سمجھی کہ وہ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے گر پڑا ہے۔ جب میں نے اس کے جسم کو سیدھا کیا تو میں نے اس کے سینے میں سوراخ دیکھا۔ گولی اس کے دل میں پیوست ہو چکی تھی۔ تب میں نے چلانا شروع کیا۔‘

رمی ان چھ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جنھیں منگل کے روز مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔ ان چھ ہلاکتوں کے ساتھ شہر میں ماہ رمضان کے مقدس مہینے کا آغاز ہوا ہے۔

تصویر

12 سالہ رمی ہمدان اسرائیلی پولیس کی طرف سے گولی مارے جانے سے چند لمحوں پہلے آتش بازی فضا میں بلند کر رہے ہیں

بدھ کی صبح ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے رمی کو گولی مارنے والے افسر کو ’ہیرو اور جنگجو‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ’مثالی کام‘ کیا ہے اور اسے اُن کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ بن گویر نے رمی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا۔

جب بی بی سی رمی کے گھر پہنچا تو ان کی والدہ راویہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اُن کے ارد گرد دوست، رشتہ دار اور دیگر افراد موجود تھے، جو اُن سے تعزیت کرنے آئے تھے۔ باہر صحن میں رمی کے 60 سالہ والد علی خاندان کے مردوں اور دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، وہ اپنے آنسو روک نہیں پا رہے تھے۔

علی کا سوال کیا کہ ’میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ 12 سال کی عمر کا بچہ دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ روزے سے تھا، اس نے افطار کیا اور اس کے بعد باہر چلا گیا اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ یہ رمضان ہے، چنانچہ انھوں نے آتش بازی کی۔ وہ کھیل رہے تھے۔‘

بچے کے والد علی کا مزید کہنا تھا کہ ’رمی ایک اچھا بچہ تھا۔ وہ سکول میں اچھا تھا، وہ ہوشیار تھا، وہ ہمارے پڑوسیوں کی مدد کرتا تھا۔ وہ کسی کو پریشان نہیں کرتا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ رمی کو قتل کرنے والا افسر ’محض احکامات پر عمل کرنے والا اہلکار تھا‘۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ سب احکامات بین گویر (قومی سلامتی کے وزیر جنھوں نے رمی کو ہلاک کرنے والے اہلکار کو ہیرو قرار دیا) کی طرف سے آتے ہیں۔ وہ کسی بھی فلسطینی کو امن سے نہیں رہنے دیں گے۔‘

بی بی سی نے بدھ کے روز اسرائیلی پولیس سے کہا تھا کہ وہ فائرنگ سے پہلے کے دنوں یا گھنٹوں میں علاقے میں تشدد، فسادات یا تشویش کے کسی دوسرے واقعے یا رمی کے خلاف کوئی ثبوت فراہم کر سکتے ہیں، لیکن اسرائیلی پولیس نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔

اس کے بجائے پولیس کے منگل کو جاری کردہ ایک تحریری بیان کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ’شوافت میں پرتشدد ہنگامہ ہوا، جس میں مولوتوف کاک ٹیل پھینکا گیا اور سکیورٹی فورسز پر براہِ راست آتش بازی پھینکی گئی۔‘

منگل کو اسرائیلی پولیس کی جانب سے شوافت کیمپ میں تقسیم کیے گئے عربی زبان میں لکھے پمفلٹس میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 20 نوجوانوں نے شام کی نماز پڑھنے کے بعد ’قوانین کی خلاف ورزی کی، آتش بازی شروع کی اور مولوتوف کاک ٹیل (دیسی ساختہ بوتل بم) پھینکے۔‘

پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی طرح کے تشدد کو برداشت نہیں کرے گی اور جو بھی پرتشدد کارروائی کرے گا یا انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اسرائیلی سرحدی پولیس نے بدھ کی رات اعلان کیا تھا کہ ایک افسر کو شوافت کیمپ میں فائرنگ کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے بعد حراست سے مشروط طور پر رہا کر دیا گیا ہے۔

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں اب تک کم از کم 418 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں مسلح گروہوں کے ارکان، حملہ آور اور عام شہری شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران 15 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم بتسیلم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2000 سے اکتوبر 2023 کے آغاز کے درمیان مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں 519 بچے ہلاک ہوئے۔

بتسیلم کے ترجمان ڈرور سدوت کا کہنا ہے ’ہم نے گذشتہ برسوں میں اس طرح کے درجنوں واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ ہم نے ابھی تک اس مخصوص معاملے کی تفتیش نہیں کی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ لڑکا پولیس کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔‘

سنہ 1965 میں شوافت کیمپ کی تعمیر کے بعد سے اس میں رہنے اور کام کرنے والے ڈاکٹر سلیم اناتی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اب تک وہاں کم از کم 20 بچوں کا علاج کیا ہے جو ربڑ کی گولیوں کی زد میں آنے کے بعد ایک یا دونوں آنکھیں کھو چکے تھے اور وہ کم از کم 10 ایسے بچوں کو جانتے تھے جو ہلاک ہوئے تھے۔

ڈاکٹر نے کہا کہ ’بہت سے بچے زخمی ہوئے ہیں، بہت سے قید ہیں، جو قید نہیں بھی ہیں تو انھیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں ایک بچے کے لیے بہت مشکل زندگی ہے۔‘

رمی اپنی زندگی کے آخری دن دوپہر تک سوتے رہے اور پھر گھر کے اندر کھیلتے رہے، پھر انھوں نے افطار کی تیاری میں اپنی والدہ کی مدد کی۔

افطار کے بعد رمی نماز کے لیے مسجد گئے، پھر گھر آئے اور اپنے والدین سے دکان پر جانے کے لیے پیسے مانگے۔ لیکن اُن کے والد نے منع کر دیا اور اپنے بیٹے کو تاکید کی کہ وہ گھر پر ہی رہے۔

رمی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’لیکن میں اپنے بیٹے کے پاس گئی اور اسے چپکے سے کچھ پیسے دیتے ہوئے کہا کہ سیدھا دکان پر جاؤ اور پھر سیدھے واپس گھر آنا۔‘

والدہ نے بتایا کہ ’گھر سے جانے کے پانچ منٹ کے اندر ہی وہ چلا گیا۔‘

Share.

Leave A Reply