اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ سیاسی نہیں نفسیاتی ہے
وسعت اللہ خان کا کالم
آٹھ فروری وہ لاشہ ہے جو بپھرے سیاسی سمندر کے اوپر عرصے تک تیرتا رہے گا۔ یہ قومی پشت پر بندھا وہ کنستر ہے جو تادیر بجےگا۔ آپ بھلے خود کو کتنا ہی مطمئن دکھاتے رہیں مگر دنیا کے لبوں پر پھیلی خفتہ مسکراہٹ تو چھیننے سے رہے۔
وہ جو مثال ہے کہ پیش قدمی کا بہترین نقشہ بھی تب تک ہی کارآمد رہتا ہے جب تک جنگ شروع نہ ہو جائے۔ لڑائی اپنا نقشہ خود مرتب کرتی جاتی ہے۔ جو وار روم کی میز پر نہیں دکھائی دیتے وہی غیر متوقع شگاف گلے کا ہار بنتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بھرتا ہے تو دوسرا نمودار ہو جاتا ہے۔
کسے معلوم تھا کہ مولانا فضل الرحمان جیسی سسٹم گھول کے پی جانے والی شخصیت کو اپنے گھر (ڈیرہ اسماعیل خان) سے بہت دور پشین (بلوچستان) میں انتخابی جائے پناہ ملے گی۔
کسے معلوم تھا کہ نواز شریف اپنے ہی گھر (لاہور) میں ایک ایسے فارم پینتالیس پر فاتح دکھائے جائیں گے جس میں بال پوائنٹ سے ایک کو گیارہ بنایا گیا اور پھر یہ فارم بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے اور نواز شریف کو مسلم لیگ کی سپاہ سالاری سے ہٹانا پڑ گیا۔
کون جانتا تھا کہ پیپلز پارٹی اسمبلی میں تیسرے نمبر پر آنے کے باوجود کنگ میکر بن جائے گی اور شہباز شریف کو وزیرِ اعظم برقرار رکھوانے کی قیمت بوٹی کے بدلے پورے بکرے کی شکل میں وصول کرے گی۔ صدر اس کا، دو گورنر اس کے، سندھ اور بلوچستان کا وزیرِ اعلی اس کا اور پنجاب میں بھی مٹھی بھر اکثریت ہونے کے باوجود چند وزارتیں اس کی۔
اور جس جماعت کو سادہ اکثریت دلوانے کا منصوبہ تھا اس کے ہاتھ کیا آیا۔ ارینجڈ میرج والی مرکزی مخلوط حکومت، پنجاب کی وزارتِ اعلی اور بلوچستان کی حکومت میں جزوی شراکت داری۔
وفاقی کابینہ کے تین سب سے اہم محکموں خزانہ، داخلہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر ماسٹر سپریم نے اپنے ٹیکنوکریٹ (اورنگ زیب، محسن نقوی، احد چیمہ) بٹھا دیے اور یہ آدیش بھی دیا کہ تینوں سینیٹ میں مسلم لیگ نون کے نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ نون کے ووٹ سے جیتنے چاہییں۔ بھلے ان کی گنجائش نکالنے کے لئے آٹھ فروری گزیدہ رانا ثنااللہ، سعد رفیق، خرم دستگیر اور جاوید لطیف جیسے جیالوں کو جھنڈی دکھانی پڑ جائے۔
اور کسے خبر تھی کہ غفار خان کے پڑ پوتے، ولی خان کے پوتے، اسفند یار کے بیٹے ایمل ولی خان رہیں گے چار سدہ میں اور سینیٹ کا الیکشن لڑیں گے بلوچستان سے۔
اور انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے مروجہ فاسٹ ٹریک سے سینیٹ تک اور وہاں سے وزیرِ اعظم ہاؤس منتقل ہوں گے اور پھر امیدوار بن کے دوبارہ سینیٹ میں لائے جائیں گے اور کچھ بعید نہیں کہ ایک دن چیئرمین سینیٹ بھی بن جائیں۔ جس طرح صادق سنجرانی کو فاسٹ ٹریک سے سینیٹ میں لا کے دو ترقیاں دے کر اب بلوچستان اسمبلی کے ایم پی اے کی شکل میں چیف منسٹر ان ویٹنگ کی شارٹ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
بالکل ایسے جیسے سرفراز بگٹی کو بلوچستان کی کابینہ سے سینیٹ میں لا کے اور پھر نگراں حکومت میں وزیرِ داخلہ بنا کے اور پھر اس عہدے سے استعفی دلوا کے پیپلز پارٹی میں شامل کروا کے بلوچستان کا وزیرِ اعلی بنا دیا گیا۔
پاکستان ویسے تو چھہتر برس سے شطرنج کی بساط ہے جس کے ایک جانب کچھ عرصے پہلے تک سیاستدان اور دوسری جانب فوجی اسٹیبشلمنٹ بیٹھ کے اپنی اپنی چالیں چلا کرتے تھے۔ جہاں موقع ملا مہرہ آگے پیچھے کر لیا۔ کوئی ہارنے لگتا تو جھگڑا ایجاد کر لیتا اور دھینگامشتی میں بساط الٹ جاتی یا مہرے اپنی اپنی جگہ چھوڑ کے گرتے پڑتے آپس میں ٹکرا کے کھیل کا حلیہ بگاڑ دیتے۔
اس دردِ سر کا حل یہ نکالا گیا کہ اب ایک ہی کھلاڑی ہو گا جو دونوں طرف بیٹھ کھیلے گا۔ باقی کھلاڑیوں کو مہروں کی جگہ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اور بساط پر مہروں کی ترتیب کچھ یوں ہو گی کہ تو اس پارٹی میں چلا جا، تو سفید کو پیٹ دے، تو ڈھائی گھر پھلانگ جا، تو وزیر کی جگہ لے لے، تجھے بادشاہ کا گھیراؤ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، تو رخ پر نظر رکھئیو اور تو فی الحال اگلی بازی تک پٹ جا۔
مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ تیز ہوا پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ بساط اڑ نہ جائے اس خوف سے بچنے کے لیے اس کے کناروں پر بھاری پتھر رکھنے پڑ رہے ہیں۔ اور یہ بھاری پتھر بھی ڈھونڈنے پڑ رہے ہیں کیونکہ اکثر تو عوام نے اپنے پیٹ پر باندھ لیے ہیں۔
مہرے بھی تھک گئے ہیں اور بازی دیکھنے والے بھی۔ تھک تو کھلاڑی بھی گیا ہے پھر بھی کھیلے چلا جا رہا ہے۔ پر اس سوال کا جواب اس کے پاس بھی نہیں کہ اگر وہ بساط کے دونوں طرف بیٹھ کے بھی خود کو جیتا ہوا سمجھے تو اس جیت کا کرے گا کیا؟
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
(عبید اللہ علیم)
زرا اس رام کی بوریت کا اندازہ لگائیے جس کے سامنے کوئی راون نہ ہو۔
پس ثابت ہوا کہ مسئلہ نہ سیاسی ہے، معاشی ہے نہ ہی سٹرٹیجک۔ مسئلہ شاید نفسیاتی ہے۔