سائفر کیس: ’کیا بے چینی تھی کہ رات کے دس بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفرکیس کے ٹرائل میں ملزمان کے لیے سرکاری وکلا صفائی کے نام تجویز کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کل کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹکے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے منگل کو بانی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

سابق وزیر اعظم اور بانی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کی ہدایات کا حوالہ دے کر جلد بازی میں ٹرائل مکمل کیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل ٹین اے کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں کیونکہ حقِ جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے۔

اپیل کنندگان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا سیکرٹری داخلہ نے وفاقی حکومت کی منظوری سے مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی، جو شکایت درج کرائی گئی اس میں بانی پی ٹی آئی یا شاہ محمود قریشی کا نام نہیں تھا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دورانِ سماعت عدالت کو بتایا کہ جتنے بھی مقدمات عمران خان کے خلاف آئے ہیں وہ ’آؤٹ آف دا باکس‘ ہی رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہارڈ کور کرمنل کیس نہیں، وائٹ کالر کرائم بھی نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا الگ ہائبرڈ قسم کا کیس ہےاور اس میں نئی عدالتی نظیر سامنے آئے گی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ریاست کے خلاف جرم کا کیس ہے، میں کہوں گا کہ ٹرائل کورٹ کے جج کو ایک اور موقع دے دیں اور میں میرٹ پر دلائل دوں گا۔

عدالت نے کہا کہ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے کہ شام کو ٹرائل کی کیا حیثیت ہو گی؟کیا بے چینی تھی کہ رات کے دس بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟ اس میں شاید کوئی غیرقانونی چیز نہ ہو لیکن سوال ہے کہ اتنی جلدی کیا تھی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ 24 جنوری کو چار گواہوں پر شام تک جرح ہوئی، 25 جنوری کو بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے التوا کی درخواست دی۔

سابق وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا جج ایک دن دانت میں تکلیف کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکےتو اگلے ہی روز ٹرائل جج نے سرکاری وکلاء مقرر کر دیے۔ ٹرائل عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے وکلاء کے نام مانگے تھے۔

جسٹس میاں گل حسن نے کہا جو وکلا مقرر کیے گئے ان کی کیا حیثیت ہے؟ چیف جسٹس نے کہا پھر تو ہمیں ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر کے انھیں بھی سننا پڑے گا۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا مجھے نہیں معلوم لیکن شاید جج صاحب نے کوئی ڈیدلائن پوری کرنی تھی۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اڈیالہ جیل میں اب بھی یہی ہو رہا ہے، اب ایک اور کیس میں بھی بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل اسی طرح ہی چلایا جا رہا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کء جج نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر دو میں لکھا کہ ہائیکورٹ کی ہدایات کی وجہ سے جلدی فیصلہ کیا۔

اپیلوں پر مزید سماعت بدھ کوہو گی۔

Share.

Leave A Reply