پی سی بی کا کوئی چیئرمین نہیں ہوگا، نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی، محسن نقوی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی نے کہا ہے ہم نے پی سی بی کی نئی 7 رکنی سلیکشن کمیٹی بنادی ہے جس میں کوئی چیئرمین نہیں ہوگا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی سلیکشن کمیٹی 7 ممبران پر مشتمل ہوگی، تمام ممبران کے پاس ایک جیسے ہی اختیارات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سلیکشن کمیٹی میں کپتان اور ہیڈکوچ ممبر ہوں گے، سلیکشن کمیٹی ہر فیصلہ خود کرے گی، سلیکشن کمیٹی کا کوئی چیئرمین نہیں ہوگا اور کوچز کے حوالے سے کام ہورہا ہے، ابھی فائنل نہیں ہوا ہے، ہم 4 سے 5 دن میں کوچز کے حوالے سے فیصلہ کرلیں گے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم پہلے سے کوچز کا نام نہیں بتا سکتے اس کے نقصانات ہیں، ایک کوچ سے ہماری بات چل رہی تھی مگر میڈیا میں بات آگئی اور اسے ایسا بتایا گیا کہ وہ کھلاڑی گھبرا کے بھاگ گیا۔

چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ سلیکشن کمیٹی میں 2 کوآرڈینیٹر اور ڈیٹا اینالسٹ ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ سلیکشن کمیٹی میں عبدالرزاق، وہاب ریاض، محمد یوسف اور اسد شفیق شامل ہیں، عماد وسیم سے صرف ایک بات ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ملک کے لیے کھیلیں۔

محسن نقوی نے کہا کہ کل سے کاکول میں 2 ہفتے کا کیمپ شروع ہورہا ہے سلیکشن کمیٹی نے اس پر مشاورت مکمل کرلی ہے، مجھے امید ہے اس کیمپ کا کافی فائدہ ہوگا۔

’حارث رؤف ہماری ذمہ داری ہے‘
انہوں نے کہا کہ حارث رؤف کو واپس سینٹرل کنٹریکٹ دے دیا ہے، حارث رؤف کی انجری کا علاج انشورنس سے ہوگا، حارث رؤف ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں ان کی فکر ہے، کرکٹ بورڈ کا پیسہ کھلاڑیوں پر خرچ ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کپتان کے اوپر کام کر رہے ہیں، ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

محسن نقوی نے کہا کہ کرکٹ کوئی بینک نہیں کہ اس میں منافع کمانا ہے، اس کا کام ہے کہ جو بھی منافع ہو وہ کرکٹ اور اس کی بہتری پر لگے گا، اگر پیسے ہیں تو کرکٹ کے مسائل حل ہونے چاہیے اور اچھے کوچز کو آنا چاہیے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین پی سی بی نے بتایا کہ کسی کے لیے کوئی چھوٹ نہیں این او سی کے حوالے سے، میں کسی کی سفارش نہیں لوں گا۔

محسن نقوی نے کہا کہ کرکٹ میں پیرا شوٹرزا کی گنجائش کم سے کم ہوگی، پیسہ ضرور لگے گا اور کرکٹ پر لگے گا، میں چیئرمین کی طاقت کا استعمال کروں گا اور پی سی بی کی بہتری کے لیے کام کروں گا، ہماری ٹیم کے پاس اور نا میرے پاس جادو کا چراغ ہیں، ٹیم کی کارکردگی بہتر ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے اگر چیزیں طویل مدت میں ٹھیک ہوں گی تو ہی 90 کی دہائی والی ٹیم واپس آئے گی۔

چیئرمین پی سی بی کے مطابق کوچز کے لیے ایک پینل بنے گا جو پاکستان کی کوچنگ کریں گے، سلیکشن کمیٹی ہی کپتان اور کوچز کا فیصلہ کرے گی، انہی لوگوں نے ساتھ میں کام کرنا ہے، کچھ اچھا برا ہوگا تو اسی ٹیم کو کریڈٹ جائے گا، میں کرکٹ کا ماہر نہیں ہوں ،میرے ساتھ بیٹھے لوگ ماہر ہیں یہ دیکھیں گے سب، میں ان ماہرین کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، یہ کام کریں گے اور بہترین نتائج دیں گے۔

کپتان کو سلیکشن ٹیم میں شامل کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کپتان جب بن جاتا ہے تو اس کو آپ کہتے ہیں کہ تم نے جیتنا ہے، اگر اس کی کوئی رائے نہیں ہوگی اور اس کو آپ ٹیم دے دیتے ہیں تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہوگی، اس کی رائے ہونا انتہائی ضروری ہے، ایسا کیسے ہوسکتا کہ اس کی رائے نا ہو بس اس سے مشاورت کرلی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کپتان کے حوالے سے مجھے نہیں پتا کیمپ ختم ہونے پر یہ فیصلہ ہوجائے گا، ہم جو فیصلہ کریں گے اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے، پی ایس ایل کی بات جہان تک رہی ہم ویمن لیگ بھی چاہتے ہیں کہ وہ ہوں۔

’چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں ہوگی‘
بھارت پاکستان کرکٹ میچ کے حوالے سے محسن نقوی نے کہا کہ کہ بات جلدی ہوجائے گی، تھوڑا سا وقت درکار ہے، اس پر بھی بہتر نتیجہ ملے گا، آئی سی سی کی ٹیم چیمپئینز ٹرافی کے لیے پاکستان آرہی ہے، یہ پہلے ضروری ہے، سب کی خواہش ہے کہ کوئٹہ پشاور میں بھی لیگ ہو، انشااللہ چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں ہوگی۔

چیئرمین پی سی بی نے بتایا کہ ایسے اقدامات کریں گے جن کے اثرات 5 سال بعد بھی نظر آئیں گے، پی ایس ایل کے بائیکاٹ سے متعلق بات کرتے انہوں نے کہا کہ بائیکاٹ کا نقصان ملک کو ہوتا ہے، ہم مسلمان ہیں لیکن سیاست کو کرکٹ میں نہیں ملانا چاہیے۔

محسن نقوی نے کہا کہ محنت ہماری ٹیم کرے گی لیکن میں اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑا ہوگا چاہے نتیجہ جو بھی ہوا ہو، میں اپنی فزیو کو بہترین کروں گا تاکہ اگر کوئی انجری ہو تو اس کو موقع پر ٹھیک کیا جائے۔

ویمن کرکٹ لیگ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں کوئی دعوی نہیں کرتا لیکن مجھے کچھ مہینے دیں، آپ کو نتائج مل جائیں گے۔

محمد عامر سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کا فیصلہ سلیکشن کمیٹی کرے گی۔

Share.

Leave A Reply