اداکار فیروز خان اور ان کی سابقہ اہلیہ علیزے سلطان کے درمیان بچوں کے معاملے پر صلح ہوگئی، صلح نامے کے مطابق بیٹا باپ اور بیٹی ماں کے پاس رہے گی۔
کراچی فیملی کورٹ شرقی میں علیزے سلطان اور فیروز خان کے بچوں کی حوالگی سے متعلق سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران فیروز خان اور ان کی سابقہ اہلیہ علیزے سلطان کے درمیان بچوں کے معاملے پر صلح ہوگئی، صلح نامہ کے بعد فیروز خان نے بچوں کی کسٹڈی اور علیزے سلطان نے بچوں کے اخراجات کی درخواستیں واپس لے لیں۔
عدالت نے درخواستیں واپس لینے پر سماعت نمٹادی، دونوں کے درمیان بچوں کے لئے شریک والدین کو پرنٹنگ طرز پر کسٹڈی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
صلح نامے کے مطابق بیٹا سلطان اپنے باپ فیروز خان کے پاس رہے گا جبکہ بیٹی اپنی ماں علیزے فاطمہ کے پاس رہے گی۔
اس کے علاوہ دونوں والدین بچوں کے ساتھ کسی وقت بھی فون، ویڈیو کال پر بات کر سکتے ہیں، خصوصی تہواروں پر دونوں والدین کو بچوں سے ملنے کی اجازت ہوگی۔
صلح نامے میں علیزے سلطان اور فیروز خان کے اتفاق سے فیصلہ کیا گیا کہ چھٹیوں پر بچے ملک یا ملک سے باہر جاسکتے ہیں لیکن دونوں والدین کے درمیان اتفاق رائے مشروط ہوگا۔
اس کےعلاوہ بیٹے سلطان کے اخراجات مکمل طور پر فیروز خان ادا کریں گے، جبکہ بچی کے لئے ہر ماہ تین تاریخ تک فیروز خان 75 ہزار علیزے کے اکائونٹ میں منتقل کرنا ہوں گے۔
بچی کی دی جانی والی رقم میں سالانہ 10 فیصد اضافہ ہوگا، بچی کے اسکول کی فیس ڈائریکٹ فیروز ادا کریں گے ایمرجنسی کی صورت میں بھی فیروز خان پابند ہوں گے کہ وہ ہسپتال کے اخراجات ادا کریں۔
صلح نامے کے مطابق بچوں کی ناسازی طبیعت کی صورت میں والدین ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے، ایگریمنٹ پر کسی صورت میں نااتفاقی پر صلاح مشورہ کیا جائے اگر بات نہ بن سکے تو عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
کیس کا پس منظر
علیزے فاطمہ اور فیروز خان کے درمیان شادی کے 4 سال بعد ستمبر 2022 میں طلاق ہوگئی تھی، دونوں کے دو بچے ہیں، جو اب تک والدہ کے پاس رہ رہے تھے۔
طلاق ہونے کے بعد علیزے فاطمہ نے کراچی کی مقامی عدالت میں بچوں کے اخراجات دلوانے کے لیے درخواست دائر کی تھی جب کہ فیروز خان نے اسی کورٹ میں 19 دسمبر 2021 کو بچوں کی حوالگی سے متعلق مقدمہ دائر کیا تھا۔
دونوں کی درخواستوں پر اکتوبر 2022 سے سماعتیں جاری تھیں اور ابتدائی طور پر دونوں کے درمیان بچوں کے اخراجات کے حوالے سے تنازع تھا اور عدالت نے دونوں فریقین کو اپنی رضامندی کے تحت اخراجات کے معاملات حل کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔
یہ سماعتیں تقریباً 2 سال تک جاری رہی اور آج اس کیس کو نمٹا دیا گیا ہے۔