پاکستان میں دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور اُن سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ’تاجر دوست سکیم‘ متعارف کروائی ہے۔
اس سکیم کے تحت تاجروں اور دکانداروں کی رجسٹریشن یکم اپریل سے لے کر 30 اپریل تک جاری رہے گی۔
تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ حکومت ریٹیل یا ہول سیل کے شعبے سے ٹیکس وصول کرنے کا سوچ رہی ہو۔ چاہے 2006 میں فوجی آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں لائی گئی اسی نوعیت کی سکیم ہو یا سنہ 2015 اور سنہ 2019 میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں۔۔۔ مگر ان سب کوششوں میں ایک قدر مشترک رہی یعنی یہ سب کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
غالباً ہر نئی آنے والی حکومت کو یہی اعداد و شمار دکھائے جاتے ہوں گے کہ تاجر اور دکاندار ملک کے جی ڈی پی میں 18 فیصد کے لگ بھگ حصہ تو ڈالتے ہیں مگر اسی حساب سے ٹیکس نہیں دیتے۔
اس مرتبہ ریٹیل کے شعبے سے اربوں کی ٹیکس وصولی کے پُرانے خواب تو ایک طرف لیکن ماہرین کی رائے میں معاشی مسائل سے دوچار ملک اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط وہ کڑوی حقیقت ہے جس نے بظاہر حکومت کو اقتدار میں آتے ہی فوراً اس سکیم کو متعارف کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ’تاجر دوست سکیم‘ کیا ہے اور یہ ماضی کی اس نوعیت کی سکیموں سے کیسے مختلف ہے؟
تاجر دوست سکیم کیا ہے؟
ایف بی آر کے مطابق اس سکیم کا اطلاق چھوٹے تاجروں، دکانداروں، ہول سیلرز، ریٹیلرز مینیفیکچررز کم ریٹیلرز، امپورٹر کم ریٹیلرز پر ہو گا۔
تاجر اور دکاندار ’ٹیکس آسان‘ نامی موبائل ایپ یا ایف بی آر کے ویب پورٹل پر رجسٹریشن کروا سکیں گے۔ رجسٹریشن کی آخری تاریخ 30 اپریل 2024 ہو گی۔
رضاکارانہ طور پر رجسٹر نہ کرنے کی صورت میں ایف بی آر خود سے مذکورہ تاجر کو نیشنل بزنس رجسٹری میں شامل کر لے گا۔
اس سکیم کا آغاز پاکستان کے چھ بڑے شہروں سے ہو رہا ہے جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ شامل ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے ترجمان آفاق قریشی کا کہنا ہے کہ ’یہ پائلٹ پراجیکٹ ہے اور اسی لیے ابتدا میں صوبائی دارالحکومتوں اور اسلام آباد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ راولپنڈی کا انتخاب اسی بنیاد پر کیا گیا ہے کہ اسلام آباد کے جڑواں شہر میں اسے لاگو کرنا قدرے آسان ہو گا۔‘
ٹیکس کا حساب ایک مستقل دکان یا کاروبار کی جگہ پر دیے جانے والے کرائے کی بنیاد پر لگایا جائے گا اور یہ ٹیکس کاروباری جگہ کی مارکیٹ ویلیو کا 10 فیصد حصہ ہو گا جس کا تعین ایف بی آر کرے گا۔
اس میں تمام کاروباری مقامات، سٹورز، گودام اور دیگر دفاتر شامل ہیں۔
ایف بی آر حکام کے مطابق ٹیکس نیٹ میں اضافے کے اس مشن کے تحت ماہانہ ایڈوانس انکم ٹیکس کی پہلی وصولی 15 جولائی سے ہو گی اور کم از کم ایڈوانس ٹیکس سالانہ 1200 روپے ہو گا۔
ایف بی آر نے اُن تاجروں کے لیے 25 فیصد ٹیکس چھوٹ کا بھی اعلان کیا ہے جو مقررہ تاریخ سے پہلے اپنا پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں یا ٹیکس سال 2023 کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کر چکے ہیں۔
ماضی کی پالیسیوں کے مقابلے میں تاجر دوست سکیم کیسے مختلف ہے؟
آفاق قریشی کے مطابق ملک میں 30 سے 35 لاکھ ایسے ریٹیلرز ہیں جو ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اس سکیم کا بنیادی مقصد ان تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔
اُن کے مطابق ’ڈیجیٹائزشن‘ اور ٹیکنالوجی کا استعمال وہ منفرد چیز ضرور ہے جو اس پالیسی کو ماضی کی پالیسیوں سے مختلف بناتی ہے۔ ’سمارٹ فون جس کے پاس ہے وہ آسانی سے اپنے آپ کو رجسٹر کر سکے گا‘۔
چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو 15 جولائی تک پہلی ادائیگی کے لیے وقت دینے سے متعلق آفاق قریشی کا کہنا تھا کہ اس سکیم کے عمل میں زیادہ وقت اس لیے دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ رجسٹر کروا سکیں۔
دوسری جانب راولپنڈی کے چیمبر آف سمال ٹریڈرڈ کے سینیئر نائب صدر نعیم اشرف کا کہنا ہے کہ یہ ماضی کی پالیسیوں سے اس طرح ملتی جلتی ہے کہ اس کو لاگو کرنے سے پہلے تاجروں اور متعلقہ لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کئی سالوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے کہ پہلے پالیسی بنائی جاتی ہے پھر ردعمل آتا ہے اور اس کے بعد مشاورت کی جاتی ہے۔‘
’عام تاجر کو یہ سکیم کیسے سمجھ میں آئے گی؟‘
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا تھا کہ ’اس سکیم پر میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ یہ بُری طرح ناکام ہو گی۔‘
اس ردعمل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ یہ سکیم نہایت ہی پیچیدہ ہے۔ ’اگر مجھ جیسے ٹیکس ماہر کو یہ سکیم سمجھنے کے لیے مشکل پیش آئی تو عام تاجر کو یہ سکیم کیسے سمجھ میں آئے گی؟‘
ذیشان مرچنٹ کے مطابق پالیسی لینے سے قبل تاجر برادری کو اعتماد میں لینا چاہیے اور انھیں پالیسی میں شامل ہونے کے فوائد سے متعلق آگاہ کرنا چاہیے۔
سابق وزیر برائے اصلاحات اور ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولہ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سکیم عام تاجر کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پالیسیاں ڈرائنگ روم میں بن جاتی ہیں اور یہ کاغذ پر لکھی ہوتی ہیں، جب آئی ایم ایف کی جانب سے سوالات کیے جاتے ہیں تو یہ پالیسی نکال کر لاگو کر دی جاتی ہے۔‘
مشاورت کے فُقدان سے متعلق جب ایف بی آر کے ترجمان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن سکیم یکم اپریل کو لانچ ہوئی ہے اس لیے آگاہی مہم بھی اس کے ساتھ ہی شروع ہو گی۔
’پالیسی لاگو کرنا سب سے بڑا چیلینج ہے‘
ٹیکس اُمور کے ماہرین میں اتفاق ہے کہ ماضی کی سکیموں کی ناکامی کی بنیادی وجہ لاگو کرنے کے لیے درکار مؤثر اقدامات کی کمی تھی۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کے خیال میں اس مرتبہ بھی سکیم کو لاگو کرنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔
ذیشان مرچنٹ کے مطابق لوگ ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے لیکن ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے کا الزام صرف حکومت پر ہی آتا ہے کیونکہ عملداری تو انھوں نے ہی قائم کرنی ہے۔
جب اس سے متعلق ایف بی آر کے ترجمان آفاق قریشی سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اسے لاگو کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انھیں نے اس متعلق کوئی پالیسی اقدامات کا تو نہیں وضح کیے لیکن یہ ضرور کہا کہ ’ہمیں حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے اہداف حاصل کر لیں گے۔‘
اشفاق تولہ نے دعویٰ کیا کہ اُن کے دور میں ایک ایسی پالیسی پر کام ہو رہا تھا جس پر ’تاجر بھی مان گئے تھے‘ اور اس کے تحت تاجر جب خریداری کرتا ہے اس موقع پر انکم ٹیکس کی مد میں ان سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لین دین ریکارڈ پر ہوتی ہیں۔
اشفاق تولہ کے مطابق اس پالیسی کے تحت تاجر کو ایک پیچیدہ سکیم اور اس جھنجھٹ میں نہیں پھنسنا پڑے گا اور اس سے 350 ارب باآسانی حکومت اکٹھا کر سکتی ہے۔
ذیشان مرچنٹ کا بھی خیال ہے کہ تاجر جن چیزوں سے رجسٹریشن سے بھاگتا ہے وہ ہے آڈٹ اور مزید ٹیکس لگنے کا خدشہ۔ اس لیے انھوں نے بھی اس کے متبادل ایک فکسڈ ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا۔
لیکن ایف بی آر کا اس متعلق موقف یہ ہے کہ ٹیکس کی رقم وصول کرنے سے زیادہ ادارے کی ترجیح ہے کہ ان تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اور یہ ممکن نہیں اگر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔