فیصل آباد میں معلم مدرسہ کی کمسن بچے کو ریپ کرنے کی کوشش: پولیس ملزم کی رہائی کے بعد متحرک کیوں ہوئی؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ میں دینی مدرسے کے ایک معلم کی جانب سے کمسن بچے سے ریپ کی کوشش کرنے کی واقعے میں مقامی پنچایت کے ذریعہ فریقین کی صلح کروانے اور اس کے نتیجے میں ملزم کی رہائی پر سوشل میڈیا پر شور مچنے کے بعد پنجاب پولیس نے اس مقدمے میں ملزم کی رہائی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پولیس نے ملزم کی رہائی سے قبل یہ اقدام کیوں نہیں اٹھایا اور اب ایسا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟

یہ معاملہ ہے کیا اور سامنے کیسے آیا؟

ریپ

پاکستان کے شہر فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ میں گذشتہ ہفتے درج ہونے والے ایک مقدمے میں ایک باپ نے یہ دعویٰ کیا کہ ’ان کے کم سن بیٹے کو ایک مقامی مدرسے کے معلم نے ریپ کرنے کی کوشش کی ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر ملزم اسلحے کے زور پر علاقہ مکینوں کو دھمکاتے ہوا موقع سے فرار ہو گیا۔‘

اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر متاثرہ بچے کے والد کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’جب میرا بیٹا شام کو مقررہ وقت پر مدرسے سے گھر نہیں پہنچا تو میں اس کی تلاش میں مدرسے سے ملحقہ گھر میں گیا، جہاں ملزم جو کہ مدرسے کے معلم بھی ہے، بچے کو ریپ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد وہ اسلحہ کے زور پر بچے کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتے ہوئے موقع سے فرار ہو گئے۔‘

اس کے بعد متاثرہ بچے کے والد نے پولیس میں اس واقعے کا مقدمے درج کروا دیا جس پر مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا، تاہم گرفتاری کے چھ دن بعد ملزم کو رہا کر دیا گیا۔

رہائی کے بعد ملزم نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انھیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’اللہ شر سے خیر نکالے گا۔ اور دعا ہے کہ اللہ دین کا کام کرنے کی توفیق دے۔‘

اس کے ساتھ ساتھ ملزم کی چند مزید ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں انھیں مدرسے کے بچوں کو مارتے پیٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی ان ویڈیوز کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کروا سکا ہے۔

بچے

پولیس نے ملزم کو گرفتاری کے بعد کیوں چھوڑا؟
بچے سے ریپ کی کوشش کرنے والے ملزم کو گرفتاری کے بعد کیوں چھوڑا دیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں بی بی سی نے جب پولیس سے رابطہ کیا تو اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار نے بتایا کہ مذہبی عالم دین علامہ ابتسام الہی کی ثالثی میں فریقین میں صلح کروا دی گئی تھی جس کے بعد متاثرہ بچے کے والد نے مقدمہ واپس لے لیا۔

ملزم کو قانونی کارروائی کے بغیر معاف کرنے سے متعلق جاننے کے لیے متاثرہ بچے کے والد سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے کو چھوڑ دیں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔‘

پولیس حکام کے مطابق بچے سے ریپ کی کوشش کرنے والے ملزم کی گرفتاری کے چھ روز بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے عالم دین علامہ ابتسام الہی تاندلیانوالہ پہنچے اور دونوں فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے صلح کروا دی۔

سوشل میڈیا پر جب اس معاملے پر شور اٹھا تو نیشنل کمیشن آف چائلڈ رائٹس کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک تھریڈ میں اس کیس سے متعلق لکھا کہ ’پنچایت میں شامل لوگوں کے خلاف اس گھناؤنے جرم کے ذمہ دار کے طور پر مقدمہ چلایا جائے۔ متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کے بارے میں قانون بہت واضح ہے اور یہ شکایت کنندگان پر سماجی اور ذاتی اثر ڈال کر اس طرح کے سمجھوتے کروانے والے لوگوں کو تحفظ نہیں دیتا۔‘

اب پنجاب پولیس نے اس معاملے پر توجہ دیتے ہوئے پیر کی شب ایک بیان جاری کیا کہ متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ پنجاب پولیس نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’ملزم کی رہائی کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ تفتیش کا عمل انجام کو پہنچ گیا ہے، پنجاب پولیس متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کی طرف سے بغیر کسی امتیاز یا غیر قانونی سماجی دباؤ کے، متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کو یقینی بنائے گی۔‘

حکومت کے مطابق اس ضمن میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے متاثرہ بچے اور اس کے والد سے ملاقات کرتے ہوئے ریاست کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔

پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ سے اس کیس کے حوالے سے مکمل مشاورت کی گئی ہے اور ان کی سفارشات کے تحت پراسکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس ملزم کی بریت کو چیلنج کرے گا کیونکہ اس کیس میں پنچائت کے دباؤ کے تحت ملزم کی رہائی ممکن ہوئی۔

’میں نے تحقیق کی اور پھر ثالث کا کردار ادا کیا‘: علامہ ابتسام الہی
بی بی سی نے علامہ ابتسام الہی سے رابطہ کر کے اس ضمن میں چند سوالات پوچھے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’جب مجھے پتا چلا کہ ایک شخص جو عالم دین اور معلم مدرسہ ہے، اسے پولیس نے چھ دن سے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے تو میں نے ضروری سمجھا کہ اس معاملے میں اپنی آواز اٹھاؤں۔ میں نے اس کیس میں بلاوجہ ثالثی کا کردار ادا نہیں کیا۔ فیصل آباد جانے سے پہلے میں پہلے مکمل معلومات اور شہادتیں لی تھیں۔ اس کے بعد میں وہاں گیا تھا۔ میں نے اس خاتون سے بھی بات کی جس کا گھر تھا۔ اس نے بھی کہا کہ میرے سامنے ملزم معلم بچے سے ٹانگیں دبوا رہے تھے۔‘

ابتسام الہی کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی تحقیق مکمل کی اور اس کے بعد متاثرہ بچے کے والد سے بھی بات کی کہ اگر آپ درست کہہ رہے ہیں کہ ملزم نے بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی ہے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور ہم مطالبہ کریں کے کہ ملزم کو سزا ہو۔ جس پر مجھے اس کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے سے ملزم پاؤں دبوا رہا تھا جو مجھے اچھا نہیں لگا تو میری ان سے تلخ کلامی ہو گئی۔‘

ابتسام الہی کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے ہمیشہ بے گناہ کے لیے آواز اٹھائی ہے اور بطور معاشرے کے ذمہ دار شہری کے یہ ہمارا حق اور فرض ہے کہ ہم اپنی آواز اٹھائیں۔‘

تاہم قانون اور عدالتی کارروائی کے حوالے سے کیے گئے سوال کے بارے میں انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کیا پولیس اپنی مدعیت میں ایسے مقدمات چلا سکتی ہے؟
یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں ہے اور یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کیس میں اگر مدعی اپنی شکایت واپس لے بھی لے تو اس میں ریاست کا کیا کردار ہونا چاہیے؟

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ممتاز گوہر کا کہنا تھا کہ ’اس کیس میں جو کچھ بھی ہوا اس میں صرف کمزوری ہماری ریاست اور پولیس کی ہے۔ ہماری رپورٹ کے مطابق مدرسوں، عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات پر بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور ریپ کیے جانے کی تعداد خطرناک حد تک موجود ہے۔ تاہم ان سنگین جرائم کی رپورٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست نے ان مذہبی افراد کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ یہاں گیم اب صرف طاقتور اور ریاست کی رہ گئی ہے۔ مظلوم کو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تاندلیانوالہ کے اس کیس میں بھی یہی ہوا ہے۔ ’ایسے مقدمات میں پولیس، عدلیہ اور ریاست بھی بےبس نظر آتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مدعی اپنی شکایت واپس لے لے تو ریاست اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروا کر کارروائی تو کر سکتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔‘

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ’بچوں کے ساتھ ریپ اور سزا کے حوالے سے قانون میں 2018 میں بہت تگ و دو کے بعد ترمیم کی گئی اور سزا کا دورانیہ اور اس کی نوعیت کو سخت بنایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی معاملات میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔‘

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی سال 2023 کی ایک رپورٹ پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہونے والے بچوں سے ریپ کے واقعات کا تفصیلی تجزیہ فراہم کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے دوران بچوں سے ریپ، کم عمری کی شادی، اغوا اور لاپتہ ہونے کے کل 4213 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 2325 لڑکے جبکہ 1928 لڑکیاں تھیں۔

Share.

Leave A Reply