محبت کی خاطر گزشہ سال انڈیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی پاکستانی شہری سیما حیدر کے ’شوہر‘ نے ان کے خلاف ایک انڈین عدالت میں کم از کم 19 دفعات کے تحت مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان دونوں کی طلاق نہیں ہوئی۔
سیما حیدر کے پاکستانی ’شوہر‘ غلام حیدر نے ایک انڈین وکیل کے ذریعے سیما پر بے ایمانی، مجرمانہ سازش، دو برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے اور انڈیا میں غیر قانونی داخلے کی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا۔
سیما حیدر گزشتہ سال مئی میں اپنے چار بچوں کے ساتھ نیپال کے راستے غیر قانونی طریقے سے انڈیا میں داخل ہوئی تھیں اور اس کے بعد سے دہلی کے پڑوسی شہر نوئیڈا کے رہائشی سچن مینا کے ساتھ رہ رہی ہیں، جن سے ان کی ملاقات پب جی گیم کھیلنے کے دوران آن لائن ہوئی تھی۔
سیما حیدر کی شادی سال 2014 میں جیکب آباد کے رہائشی غلام حیدر سے ہوئی تھی۔ اس شادی سے ان کے چار بچے ہوئے۔ بعد ازاں دونوں کراچی شفٹ ہو گئے اور 2019 میں غلام حیدر کام کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سیما نے سچن مینا سے بات کرنا شروع کی اور اس کا ذریعہ ایک آن لائن گیم تھا۔
انڈیا میں داخل ہونے کی کہانی منظر عام پر آنے کے بعد انڈیا میں سیما اور سچن چند روز کے لیے پولیس کے زیر حراست بھی رہے تھے لیکن کچھ دن بعد دونوں ضمانت پر رہا ہو گئے۔
غلام حیدر کے وکیل مومن ملک کا کہنا ہے کہ سیما کی طلاق نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان کی سچن سے شادی انڈین قانون میں نا جائز ہے اور وہ عدالت کو گمراہ کر رہی ہیں تاہم سیما کے وکیل اے پی سنگھ نے اس دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سیما نے چار سال قبل غلام حیدر کو زبانی طور پر طلاق دی تھی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’غلام نے انھیں چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ رہتی تھیں۔ والد کی موت کے بعد سیما کا سچن سے رابطہ ہوا اور وہ انڈیا آ گئیں۔‘
اے پی سنگھ نے کہا کہ سیما اور سچن نے گزشتہ مارچ میں نیپال میں شادی کر لی تھی اور اپنی پہلی سالگرہ اس سال 13 مارچ کو ہندو رسم و رواج کے مطابق پوری دھوم دھام سے منائی۔
لیکن غلام حیدر کے وکیل مومن ملک بتاتے ہیں کہ سیما نے اپنی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران بھی اپنے شوہر کا نام غلام حیدر بتایا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سیما نے عدالت میں ایک حلف نامے میں بھی خود کو غلام حیدر کی بیوی کے طور پر بتایا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ سیما نے کوئی ثبوت پیش کیا نہ ہی عدالت میں کوئی دستاویز جمع کروائی کہ انھوں نے غلام حیدر کو طلاق دے دی۔
وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’جب آپ کی شادی سچن سے مارچ 2023 میں ہو گئی تھی تو آپ نے عدالت سے ضمانت حاصل کرتے وقت غلام حیدر کا نام دستاویزات میں کیوں استعمال کیا؟‘
انھوں نے کہا کہ سیما کی تمام دستاویزات میں غلام حیدر ان کے شوہر ہیں۔ ’انھوں نے اپنے شوہر کو دھوکہ دیا، عدالت میں جھوٹ بولا اور اب وہ انڈیا میں غیر قانونی طور پر رہ رہی ہیں۔‘
مومن ملک کا کہنا ہے کہ عدالت نے مقامی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 18 اپریل تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ مومن ملک کے مطابق غلام حیدر نے پاکستان کی این جی او ’انصار برنی ٹرسٹ‘ کے ذریعے ان سے رابطہ قائم کیا۔
تاہم سیما کے وکیل اے پی سنگھ نے اس کیس کو ’پبلسٹی سٹنٹ‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ وکیل کے انڈیا میں ہونے سے اس کیس پر کوئی اثر نہیں ہو گا لیکن مقدمے کی سماعت کے لیے شکایت کنندہ کو اپنے وکیل کے علاوہ خود یا کسی اور نمائندے کو مقرر کرنا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ سیما انڈیا آنے سے پہلے ہندو مذہب اختیار کر چکی تھیں، اپنے بچوں کا نام تبدیل کر چکی تھیں اور ایک پنڈت کی موجودگی میں سناتن دھرم (ہندو مذہب کا دوسرا نام) کے تحت سچن سے شادی کر چکی تھیں اور وہ اپنی ضمانت کی شرائط پوری کر کے یہاں رہ رہی ہیں۔
اس الزام پر کہ سیما نے ایک انڈین عدالت میں غلام حیدر کے نام کا استعمال اپنے شوہر کے طور پر کیا، اے پی سنگھ نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ چونکہ اس وقت سیما اور سچن پولیس حراست میں تھے اور صرف ملزم کاغذی کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ پولیس یا کلرک نے حقائق کی جانچ پڑتال کے بغیر کچھ لکھ دیا ہو گا۔‘
قوجداری مقدمات کے وکیل کرنیل سنگھ کا کہنا ہے کہ غلام حیدر کا مقدمہ انڈیا کی عدالتوں میں نہیں چلے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سیما کی شادی پاکستان میں ایک پاکستانی شہری سے ہوئی تھی۔ پاکستان میں جو کچھ ہوا اس پر انڈین عدالتوں کا دائرہ اختیار نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دونوں (سیما اور غلام حیدر) پاکستانی شہری ہیں اور پاکستانی یا انڈین شہری صرف اپنے ملکوں میں مقدمہ دائر کر سکتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے ملک میں۔