سائفر کیس پر سماعت: ’عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے کوئی راز فاش نہیں کیا‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ہم نے جائزہ لیا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بیانات میں کچھ راز عیاں نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ایک طرف آپ ڈی مارش کر رہے ہیں، دوسری طرف کہہ رہے ہیں اس ملک سے تعلقات خراب نہ ہوں۔ آپ نے اس ملک سے تعلقات خراب نہ کرنے کے لیے سابق وزیراعظم کوجیل میں ڈال دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ’ہاتھی آپ نکال چکے، دم بھی نکال دیں۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا سائفر کبھی بھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا۔ جب کیس دومرتبہ ریمانڈ بیک ہو کر جائے تو جج کو احتیاط سے کیس سننا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے بطور ملزم بیان سے پہلے ہی فیصلہ سنادیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ملزمان کے حتمی بیان کے بعد بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمود قریشی سے دو دو سوال پوچھے گئے اور سوال پوچھنے کے فوری بعد سزا سنادی گئی۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ ریاست کے اعتماد کا قتل کیا گیا، ملزمان رعایت کے مستحق نہیں۔

ان کے مطابق یہ کلبھوشن جادھو یا ابینندن کے لیے بنائے گئے قوانین ہیں مگر ریاست کے دشمن کے لیے بنے قانون کو سیاسی دشمن کے خلاف استعمال کر لیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ہمیں جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگرفارن سٹیٹ نے کوئی جارحانہ بات کی ہے تووہ آپ بتائیں گے نہیں کیونکہ وہ بات سائفرمیں آئی ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ سائفر اگر سائفر کے طور پر نہ آتا اورعمومی طور پر بھیجا جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ اگر سائفر ڈپلومیٹک بیگ کے طورپر آتا تو کیا پھر وزیراعظم اسے سامنے لاسکتا تھا؟

ملزمان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا دونوں اپیل کنندگان سے کوئی ریکوری نہیں ہوئی، کسی ملزم سے سائفر کی کاپی برآمد نہیں ہوئی، ایف آئی اے نے غلط کیس بنایا اور ٹرائل کورٹ نے بھی غلط سزا دی۔ آج تک سائفر کے الزام پر کسی پر کیس نہیں بنا اور سزا نہیں ہوئی۔

ٹرائل کورٹ جج نے فیصلے میں کبھی سیاسی مقاصد کا بتایا اور کبھی اکانومی کا ذکر کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا ملزم کے بیان میں ایک حصہ لکھا ہوا ہے کہ جج سزا سنا کر فوری کورٹ سے روانہ ہوگئے۔یہ بیان تو پراسیکیوشن کے شواہد کے جواب میں دفاعی بیان حتمی سے پہلے ہوتا ہے۔ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فیئرٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل جج نے فیصلے میں یہ فائنڈنگ دی کہ پاکستان امریکا تعلقات ختم ہوگئے، ایسا کس بنیاد پر لکھا گیا؟

سلمان صفدر نے کہا جج نے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید کے بیان کی بنیاد پر لکھا۔

عدالت نے کہا بانی پی ٹی آئی کے خلاف الزامات ’سیکرٹ ڈاکیومنٹ ڈسکلوز‘ اور پھر اسے غائب کرنے کے ہیں۔ سلمان صفدر نے کہا ٹرائل کورٹ جج نے اس کیس کو چلاتے وقت اپنے حلف کا خیال بھی نہیں رکھا، اسد عمر کو سیاست چھوڑنے پر ملزم نہیں بنایا گیا۔

اعظم خان سے بیان لے کر چھوڑ دیا، شاہ محمود قریشی چونکہ بانی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کوتیار نہیں تھے اس لیےانھیں سزا دلوائی گئی۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا دشمن ریاست کون سی ہے، دشمن ریاست کو کیا فائدہ پہنچایا گیا؟

ان کا کہنا تھا قانون کا مذاق بنایا گیا، غیر سنجیدہ پراسیکیوشن کی گئی۔ سائفر سامنے اس لیےنہیں لائے کیونکہ وہ ملزم کی فیور کرتا۔

سائفر کا متن ’پلین ٹیکسٹ‘ کی صورت میں بھی سامنے نہیں آیا۔ ایسا نہیں کہ سائفر گم گیا، وہ آج بھی ساتھ والی بلڈنگ فارن آفس میں موجود ہے، سائفر تو اس کو کہنا ہی نہیں چاہیے، وہ تو فارن آفس میں رہ گیا، اس کی کاپیاں بھجوائی گئیں۔ صرف ایک کاپی واپس نہ آنے پر کیس بنایا گیا جبکہ سائفر کی تو نو کاپیاں واپس نہیں آئی تھیں پھر کس صرف بانی پی ٹی آئی کے خلاف کیوں؟

ان کے مطابق اگر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ختم ہو تو چیزوں کو بہتر کرنے کا موقع بھی مل جائے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے آپ کو 10سال کی جو سزا ہوئی اس کو ڈی مولش کرنے کی کوشش کی ہے، ہم نے نوٹ کر لیا ہے۔

آپ نے اچھے سےدلائل دیے، ایک چیز آپ کے پاس آتی ہے وہ واپس نہیں کی جاتی۔

سائفر کی کاپی واپس نہ دینے پر دو سال کی سزا سنائی گئی، آپ نے سائفر کاپی واپس دینی تھی جو واپس نہیں دی گئی، اس پر کل دلائل دیں۔

سلمان صفدر نے کہا صرف بانی پی ٹی آئی نے نہیں دینے تھے باقی لوگوں کے پاس بھی کاپیاں تھیں جو پرچہ درج ہونے کے بعد واپس آئیں۔ سائفر اپیلوں پر مزید سماعت چار اپریل کو ہو گی۔

Share.

Leave A Reply