سپریم کورٹ کے مزید ججز کو لکھے گئے خط سامنے آگئے جس کے بعد مشکوک خطوط کی تعداد 10ہوگئی ہے۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق سامنے آنے والے تمام 10 خطوط ایک ہی تاریخ کو بھیجے گئے تھے۔
ججوں کو موصول خطوط محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے حوالے کر دیے گئے، سپریم کورٹ کے ججز کو موصول خطوط میں بھی آرسینک پاؤڈر پایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام خطوط ایک ہی تاریخ کو آئے، کچھ ججز کو اب ملے ہیں۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل سپریم کورٹ کے 4 ججوں کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے تھے جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 اور لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز کو دھمکی اس طرح کے خطوط موصول ہوئے تھے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کو دھمکی آمیز خطوط یکم اپریل کو بھیجے گئے تھے،مذکورہ چاروں خطوط میں پاؤڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں۔
اسلام آباد کے تھانہ سی ٹی ڈی میں سپریم کورٹ آر اینڈ آئی برانچ انچارج کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور 507 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق عام ڈاک موصول ہوئی جو متعلقہ جسٹس صاحبان کے سیکریٹریز کو ڈاک وصول کروائی گئی۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ خطوط میں چار لفافے تھے جو چیف جسٹس پاکستان اور تین دیگر تین جسٹس صاحبان کے نام سے تھے۔
مدعی کے مطابق ایڈمن انچارج خرم شہزاد نے تین اپریل کو بذریعہ فون بتایا کہ ان لفافوں میں سفید پائوڈر نما کیمکل موجود ہے، ان میں سے تین خطوط گلشاد خاتون اور ایک خط سجاد حسین کی جانب سے بھیجے گئے ہیں اور دونوں کا پتا نامعلوم ہے۔
ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا کہ خطوط کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
قبل ازیں 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے تھے،
اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دھمکی آمیز خطوط جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام بھجوائے گئے۔
ذرائع کے مطابق دھمکی آمیز خطوط نجی کوریئر کمپنی کے ملازم نے موصول کروائے، جسے حراست میں لے لیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہا ہے کہ مشکوک خطوط کے معاملے پر تحقیقات کرائیں گے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، ہمیں اس معاملے پر سیاست نہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔