پیراں دتہ خان نے قانون کے شکنجے سے بچنے کے لیے تقریباً دو دہائیاں پاکستان میں گزار دیں۔
پیراں دتہ خان کو گذشتہ سال پاکستان سے برطانیہ کے حوالے کیا گیا تھا، وہ اس ڈکیتی میں ملوث سات افراد میں سے آخری شخص تھے، جسے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے پہلے ڈکیتی کا اعتراف کیا لیکن افسر کے قتل سے انکار کیا تھا۔
جمعرات کو لیڈز کراؤن کورٹ نے پیراں دتہ خان کو دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے کے ارادے سے اسلحہ رکھنے کے دو الزامات اور ممنوعہ ہتھیار رکھنے کے دو الزامات میں بھی قصوروار پایا۔
38 سالہ پی سی بیشینوسکی کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ شہر کے مرکز میں ایک ٹریول ایجنٹ کے دفتر ڈکیتی کی شکایت پر پہنچیں۔ اس رات ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی چوتھی سالگرہ تھی۔
جب وہ اپنی ساتھی پی سی ٹریسا ملبرن کے ساتھ ٹریول ایجنٹ کے دفتر کے داخلی دروازے کے قریب پہنچیں تو تین افراد اندر سے باہر نکلے اور دونوں افسروں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔
پی سی بیشینوسکی کو قریب سے گولی ماری گئی اور وہ فٹ پاتھ پر گر گئیں جبکہ پی سی ملبرن شدید زخمی ہوئیں۔
گولی مارنے والا شخص ان تین مسلح افراد میں سے ایک تھا جو اسی وقت ڈکیتی کرکے تقریباً 5400 پاؤنڈ نقدی لے کر فرار ہو گئے تھے۔
بعد میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا اور انھیں قتل اور دیگر الزامات میں سزا سنائی گئی، پیرا دتہ خان مقدمے کا سامنا کرنے والے ساتویں اور آخری شخص تھے۔
لیڈز کراؤن کورٹ کے ججوں کو بتایا گیا کہ اس ڈکیتی کے ماسٹر مائنڈ پیراں دتہ خان تھے اور انھوں نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنے اور دوسروں کو ہدایات دینے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔
پیراں دتہ خان نے عدالت کو بتایا کہ جس وقت ڈکیتی کی جا رہی تھی اس وقت وہ حسن رزاق کے ساتھ ایک گاڑی میں انتظار کرتے ہوئے سینڈوچ کھا رہے تھے۔
بعد میں حسن رزاق اور ان کے بھائی فیصل رزاق پر قتل، ڈکیتی اور اسلحہ رکھنے کے الزامات ثابت ہوئے۔ رضا الحق اسلم کو ڈکیتی کے جرم میں سزا سنائی گئی۔
یونیورسل ایکسپریس میں اسلحہ لے کر جانے والے مذکر شاہ اور دو بھائیوں یوسف جامہ اور مصطفی جامہ کو قتل، ڈکیتی اور اسلحہ رکھنے کے جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔
لیڈز کراؤن کورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح پیراں دتہ خان پی سی بیشینوسکی کی ہلاکت کے فوراً بعد پاکستان فرار ہو گئے اور قانون سے بچنے کے لیے تقریباً دو دہائیاں پاکستان ہی گزاریں۔
سنہ 2020 میں پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتاری تک وہ قانون سے بچتے رہے مگر پھر گذشتہ برس انھیں گرفتار کرکے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
ڈینی سیویج، عدالت میں بی بی سی نیوز کے نامہ نگار
عدالت میں بیٹھ کر سی سی ٹی وی پر کسی کی زندگی کے آخری لمحات دیکھنا خوفناک ہے۔
شیرون بیشینوسکی اور ٹریسا ملبرن کو اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
ان کی پولیس کار کو 18 سال قبل جمعے کی دوپہر بریڈ فورڈ کی مورلی سٹریٹ میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
وہ دونوں آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں شفٹ ختم کر کے گھر جانے والی تھیں۔ اس رات پی سی بیشینوسکی کی بیٹی کی چوتھی سالگرہ تھی۔ تب ایک ٹریول ایجنٹ پر حملے کا الارم چل رہا تھا۔
وہ دونوں اپنی کار سے باہر نکل کر عمارت کے سامنے والے دروازے کی طرف سڑک کے پار جان بوجھ کر ٹہلنے لگتی ہیں۔ اس کے ایک سیکنڈ بعد ایک خوفناک منظر سامنے آتا ہے۔
دروازے سے فائر کرتے نکلنے والے لوگوں نے پی سی بیشینوسکی کو فرش پر مرتے ہوئے چھوڑ دیا اور پی سی ملبرن کو سینے میں گولی مار دی۔
سی سی ٹی وی میں بندوق برداروں کو اپنی گاڑی کی طرف بھاگتے ہوئے دکھایا گیا اور شیرون بیشینوسکی کے خاندان کے لیے جیسے وقت وہیں رک گیا۔
جس شخص نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی تھی وہ آس پاس ہی ایک مرسڈیز چلاتا نظر آتا ہے۔ ڈکیتی سے چند لمحے پہلے اس نے اور ایک ساتھی نے کہا کہ مطلع صاف ہے اور پھر وہ دونوں گاڑی وہاں سے نکال لے گئے۔
پیراں دتہ خان نے اس وقت کیا سوچا ہو گا جب انھیں پتا چلا کہ گینگ کے باقی لوگوں نے دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار دی ہے؟
یقیناً انھوں نے پاکستان بھاگ جانا مناسب سمجھا۔ انھیں واپس لانے میں کئی سال لگے لیکن اب بالآخر انھیں شیرون بیشینوسکی کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیل میں 75 سالہ پیراں دتہ خان کی موت ہو سکتی ہے۔ ایک پولیس افسر کو قتل کرنے پر انھیں بہت لمبی سزا ہو گی۔
جمعرات کو لیڈز کراؤن کورٹ کے باہر بات کرتے ہوئے ویسٹ یارکشائر پولیس سے تعلق رکھنے والے ڈیٹ سپرنٹ مارک بوئس نے کہا کہ فورس تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔
’اس روز شیرون اپنے گھر سے کام کرنے کے لیے نکلیں، انھیں پوری امید تھی کہ وہ کام سے لوٹ کر اپنے پیاروں کے پاس آئیں گی لیکن ان لوگوں کے خطرناک اقدامات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔‘
ڈیٹ سپرنٹ مارک بوئس نے مزید کہا کہ پچھلے 18 سال کے دوران شیرون کے خاندان نے جس حوصلے اور وقار کا مظاہرہ کیا، وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ آج کے فیصلے کے بعد اب وہ اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ پائیں گے۔‘
’پی سی شیرون بیشینوسکی ڈیوٹی کے دوران انتہائی خوفناک حالات میں اپنی جان گنوا بیٹھیں۔ انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘
کراؤن پراسیکیوشن سروس یارکشائر اور ہمبر سائیڈ کے ماہر پراسیکیوٹر ڈیوڈ ہولڈرنس نے کہا کہ ’پیراں دتہ خان اس ڈکیتی کے خالق تھے اور انھوں نے احتیاط سے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی تھی جو اسلحے کے زور پر کی جانی تھی، یعنی اگر وہ ضروری سمجھتے تو مارنے کے لیے اس کا استعمال کیا جا سکتا تھا۔‘
’شیرون کو مارنے والی گولی نہ چلانے کے باوجود، وہ ان کے قتل کا اتنا ہی قصوروار ہیں جتنا وہ شخص جس نے ٹرگر چلایا۔‘
نیشنل کرائم ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر انٹرنیشنل ٹام ڈاؤڈل نے کہا کہ ’جو بھی مجرم قانون کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے برطانیہ چھوڑتا ہے، اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ ہم آپ کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، آپ کو عدالتوں کے سامنے واپس برطانیہ لائیں گے۔‘
پیراں دتہ خان کو بعد کی تاریخ پر سزا سنائی جائے گی۔