شہباز شریف سعودی عرب روانہ: وزیرِ اعظم نے پہلے سرکاری دورے کے لیے اسی مُلک کا انتخاب کیوں کیا؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کے سرکاری دورے کے لیے روانہ ہو ہو گئے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف بذریعہ کمرشل ائیرلائن سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو بھی سیاستدان انتخابات جیت کر وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، اس نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔

سنہ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے اور وہ اگست 2013 میں ہی سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو گئے تھے۔

ایسا ہی کچھ ان کے بعد 2018 کے عام انتخابات جیت کر وزیرِاعظم بننے والے عمران خان نے بھی کیا اور وہ بھی اسی برس ستمبر کے مہینے میں سعودی عرب چلے گئے۔

پاکستان میں 2024 کے عام انتخاب کے نتیجے میں ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اس کے سربراہ وزیرِاعظم شہباز شریف ہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ماضی کے وزرائے اعظم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزارتِ اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کریں گے جس کے لیے وہ سنیچر کے روز روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی ہیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کی اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی متوقع ہے۔

اس دورے پر وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر برائے اقتصادی امور احد چیمہ اور وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی سعودی عرب روانہ ہوئے ہیں۔

پاکستانی وزیرِاعظم اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی درخواست پر آئندہ مہینوں کے دوران نئے پروگرام پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

شہباز شریف نے گذشتہ مہینے بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے کے بعد بدحال معیشت کو اپنی حکومت کے لیے ایک چیلنج قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی مالیاتی معاملات سے نمٹنے کے لیے گہری سرجری کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔‘

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان گذشتہ برس جون میں تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے تھے جس کی 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط رواں مہینے پاکستان کو موصول ہوجائے گی۔

پاکستانی حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا۔

سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ خیال رہے نومبر 2021 میں پاکستان کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کے لیے جمع کروائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا ایجنڈا تو اب تک حکام کی جانب سے شیئر نہیں کیا گیا ہے، لیکن خیال یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی ملاقات میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات زیرِ گفتگو آئیں گے۔

پاکستانی وزرائے اعظم پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی کیوں انتخاب کرتے ہیں؟

بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں پاکستانی تھنک ٹینک ’تبادلیب‘ کے بانی مشرف زید کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب پاکستان کا سٹریٹجک اور معاشی شراکت دار ہے۔ وہاں مسلمانوں کی دو مقدس مساجد بھی واقع ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستانی رہنماؤں کی یہ روایت ہے کہ (اقتدار میں آنے کے بعد) وہ پوری مسلم امہ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور خصوصاً سعودی عرب کے استحکام اور سکیورٹی کی حفاظت کا عزم کرتے ہیں۔‘

پاکستان، سعودی عرب، شہباز شریف

عمران خان نے بھی 2018 میں وزیرِاعظم بننے کے بعد سب سے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا

برطانیہ میں مقیم ’کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز‘ سے منسلک ایسوسی ایٹ فیلو عمر کریم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدان اور فوجی حکام عام طور پر سعودی شاہی خاندان سے اپنے سیاسی تعلقات مضبوط کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آ کر سیاستدانوں کا سعودی عرب جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ’عمرہ اور زیارتیں‘ کر کے ملک میں اپنی قبولیت بڑھائی جا سکے۔

خیال رہے 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف پاکستان کے دوسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ تقریباً 16 مہینے ملک کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔

اس سے قبل سنہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا گیا تھا اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو ملک کا

معیشت کی بحالی کے لیے پاکستان پھر سعودی عرب کی طرف دیکھ رہا ہے؟

سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے اچھے تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاشی بحرانوں کے دوران لوگوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ سعودی شاہی خاندان مصیبت کے وقت پاکستان کی مدد کرے گا۔

عمر کریم کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کا تعلق پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں ہوتا ہے اور پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نہ ختم ہونے والے معاشی بحرانوں کے سبب اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ پاکستانی رہنماؤں کے ایسے دورے سعودی فیصلہ سازوں سے مالی مدد مانگنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں شہباز شریف نے اپنی پچھلی حکومت کے دور میں بھی سعودی عرب کے دورے کیے تھے لیکن وہ کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

’سعودی عرب نے اس وقت کچھ اضافی وسائل دینے کا کہا ضرور تھا لیکن صرف اس صورت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہو۔‘

تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی مالی مدد کے لیے اب کچھ شرائط رکھ دی گئی ہیں؟

تجزیہ کار مشرف زیدی کہتے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وزیراعظم بن جانے اور ان کے ’وژن 2030‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار طے کر دیا ہے۔

پاکستان، سعودی عرب، شہباز شریف

پاکستان پارلیمنٹ نے یمن جنگ کے لیے اپنی فوج سعودی عرب بھیجنے سے انکار کر دیا تھا

واضح رہے دہائیوں سے سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے پیدا ہونے والی آمدنی پر رہا ہے لیکن اب شہزادہ محمد بن سلمان ’وژن 2030‘ کے ذریعے اس سے چھُٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مشرف زیدی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے پہلے وزارتِ اعظمیٰ کے دور میں بھی سعودی عرب پاکستان میں بڑا سرمایہ لگانے کے لیے تیار تھا لیکن پاکستانی حکومت اس کے لیے کوئی قابلِ غور پلان تشکیل دینے میں مشکلات کا شکار رہی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’وزیرِاعظم شہباز شریف بدستور مشکلات کا شکار رہیں گے کیونکہ ان کی حکومت کا انحصار پاکستان کی کمزور، غیر فعال اور کم صلاحیتوں والی سویلین اور عسکری بیوروکریسی پر ہے۔‘

’کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز‘ سے منسلک ایسوسی ایٹ فیلو عمر کریم بھی اس حوالے سے مشرف زیدی سے کسی حد تک اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف اور پاکستانی فوج کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بدلے میں سعودی عرب کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔‘

’خصوصاً یمن کے تنازع کے دوران پاکستان کے وہاں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے کے بعد ان تعلقات میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں والا معاملہ اب اتنا اہم نہیں رہا ہے۔‘

خیال رہے 2015 میں یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان سے عسکری مدد کی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔

عمر کریم کے مطابق حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد پاکستان نے اپنا مزید اثر و رسوخ کھو دیا۔

’اب مالی معاملات پر بات شرائط کے ساتھ ہی ہوں گی اور کسی بھی قسم کی مالی مدد کے لیے پاکستان کو سعودی عرب کو اس ہی طرح راضی کرنا ہوگا جس طرح وہ آئی ایم ایف کو کرتا ہے۔‘

وزیرِاعظم منتخب کیا تھا۔

Share.

Leave A Reply