دس اپریل 1988 کو اتوار کی صبح تھی، جب نو بجکر 50 منٹ پر جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد زوردار دھماکے سے لرز اٹھے۔
ابھی لوگ دھماکے کی وجہ جاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ہر طرف سے ان پر راکٹوں اور میزائلوں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ قیامت کی وہ گھڑی جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد میں اوجڑی کیمپ کے اندر اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ کے باعث بم پھٹ رہے تھے۔
میزائل اور راکٹ اُڑ اُڑ کر دونوں شہروں کے مختلف حصوں میں گر کر تباہی پھیلا رہے تھے۔ سڑکوں پر موجود لوگ پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے تھے۔ کسی نے اس کو انڈین حملہ قرار دیا تو کسی نے کہا کہ اسرائیل نے اٹیک کیا ہے۔ سڑک پر چلتی گاڑیاں نشانہ بن رہی تھیں۔
راکٹ اور میزائل لوگوں کے سروں پر سے ہوتے، خوف و ہراس پھیلاتے زمین پر گر رہے تھے، جڑواں شہروں میں ٹیلی فون بجلی اور گیس کی فراہمی کے نظام درہم برہم ہو چکے تھے۔ چکلالہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا اور پروازوں کی آمد و رفت روک دی گئی۔
اوجڑی کیمپ سے کئی کلومیٹر دور ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی کئی راکٹ گرے۔ اُن دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی اس لیے اتوار کو تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلے تھے۔
دھماکے کے فوری بعد سرکاری و نجی دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ اوجڑی کیمپ کے اسلحہ خانے میں لگی آگ بھڑک رہی تھی اور کیمپ سے ملحقہ آباد گلشن دادن خان کے رہائشی گھر سرمے کا ڈھیر بن چلے تھے۔
زخمیوں کے جسموں کے اعضا اُڑ گئے تھے، جسم بُری طرح جُھلس گئے تھے، ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، فوجی دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور امدادی کارروائیاں عروج پر تھیں۔
اس دوران اطلاع آئی کہ اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے پیداوار محمد خاقان عباسی کی چلتی گاڑی پر دو راکٹ گرے جس کے نتیجے میں خاقان عباسی ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے بیٹے زاہد عباسی شدید زخمی ہو گئے۔ زاہد عباسی بعد ازاں چودہ سال تک کومے میں رہنے کے بعد فوت ہو گئے۔
اوجڑی کیمپ سے کئی کلومیٹر دور ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی گرے۔ وفاقی حکومت نے فوری طور پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا۔
راولپنڈی کی رہائشی ثریا منیر کی عمر اس واقعے کے وقت 13 سال تھی اور وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خیابان سرسید میں رہائش پذیر تھیں۔
ثریا منیر کہتی ہیں ’اس روز سکول میں ٹیسٹ تھا اور میں اپنی کزن کے ساتھ سکول جانے کے لیے قریب ہی اپنی چچی کے گھر گئی۔ اس وقت وہ واشنگ مشین پر کپڑے دھو رہی تھیں۔ میرے داخل ہونے کے کے چند منٹ بعد زوردار دھماکہ ہوا کہ واشنگ مشین بھی اچھل گئی۔ ہم سب چیخ پڑے، پھر ہر طرف سے چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ خیابان سرسید سے نالہ لئی کے دوسری جانب کٹاریاں کی آبادی اور کے ساتھ اوجڑی کیمپ ہے۔ ہم نے اوجڑی کیمپ سے سیاہ دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے اور پھر مسلسل دھماکے سنائی دینے لگے، اس کے فوری بعد فضا میں راکٹ برسنے لگے، بھگدڑ مچی ہوئی تھی، ہر کوئی چیخ رہا تھا کہ بھارت نے فضائی حملہ کر دیا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں: ’ہمارے سمیت تمام لوگ مرد اور خواتین گھر بار کھلے چھوڑ کر بنگش کالونی کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ عورتوں کے پاؤں میں جوتے اور سروں پر دوپٹے نہیں تھے۔ کسی کو اپنے بچوں کا بھی خیال نہ تھا۔ یوں کہیں کہ قیامت کا منظر تھا اور ہر کوئی صرف اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ میں کبھی سوچتی ہوں تو دعا کرتی ہوں کہ خدا اب ایسا منظر زندگی میں نہ دکھائے۔‘
فیض آباد کے مقام پر واقع اوجڑی کیمپ سے کئی کلومیٹر دور پاکستان ٹیلی وژن کے اکاؤنٹس کے شعبہ میں خدمات انجام دینے والے محمد جاوید پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز کی چوتھی منزل پر تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم دفتر پہنچ کر کام شروع کر چکے تھے جب ایک زوردار دھماکے سے کھڑکیاں دروازے بجنے لگے۔
’یوں لگا کہ جیسے کوئی بہت بڑا بم کہیں گرا ہو، اس کے بعد پے در پے دھماکے ہونے لگے، ہم لوگ اپنے دفتر کی سیڑھیوں کے راستے باہر کی طرف بھاگے۔ ہر طرف خوف کی فضا تھی ہر آدمی انڈین حملے کی بات کر رہا تھا کہ بڑا فضائی حملہ کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف راکٹ اور میزائل گر رہے ہیں۔‘
’ہمارے دفتر کے عقب میں سرکاری فلیٹس گلشن جناح ہیں جہاں ایک راکٹ آ کر لگا جس سے زوردار دھماکہ ہوا اور ہمارے دفتر کے کچھ ساتھی پی ٹی وی کی عمارت سے نکل کر سامنے مارگلہ کی پہاڑیوں کے ٹریل فائیو کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ محفوظ جگہ ہو گی۔ ‘
کچھ لوگوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کی سمت بری امام کے مزار کی جانب بھاگنا شروع کر دیا۔ تب تک کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اصل میں یہ واقعہ کیا ہے؟ ٹیلی وژن کے عملے کا کوئی بھی فرد عمارت کے اندر موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز دی جا رہی تھی۔ بس ایک بھگدڑ تھی جو مچی ہوئی تھی۔
انیس رحمان اس روز راولپنڈی صدر کے علاقے میں اپنے دفتر میں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ایک خوفزدہ کر دینے والا واقعہ تھا۔
’ہمارا دفتر عمارت کی دوسری منزل پر واقع تھا کہ اچانک زوردار دھماکے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ ہم لوگ دفتر کی عمارت سے نکل کر نیچے کشمیر روڈ پر آگئے جہاں لوگ چلا رہے تھے اور ایک دوسرے کو پکار رہے تھے۔‘
’ہر تھوڑی دیربعد ایک راکٹ آ کر گرتا جیسے کوئی ماہر نشانہ باز فائر کر رہا ہو۔ میں نے ایک موچی کو دیکھا جو اس ہنگامے سے بے نیاز جوتے گانٹھنے میں مصورف تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے ایک راکٹ نے اسے ہٹ کیا اور پھر میں نے اس کو جسم ہوا میں اچھلتے اور پھر زمین پر گرتے دیکھا۔ میری آنکھیں مزید اس منظر کی تاب نہ لا سکیں۔‘
جب راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر بارود کی بارش جاری تھی تب اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق منی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے کویت میں تھے اور یہ کانفرنس اسی روز شروع ہونے والی تھی جبکہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کراچی میں تھے۔
جنرل ضیا الحق نے فوری پر وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور صورتحال سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے ہدایات بھی جاری کیں۔
اتوار کی شام وزیر اعظم محمد خان جونیجو کراچی سے لاہور پہنچ گئے۔ چکلالہ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں انھوں نے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، انھیں حادثے کے نقصانات اور اس کی تفصیلات پر متعلقہ حکام نے بریفنگ دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے اس حادثے کو حکومت کی مکمل ناکامی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کی مکمل انکوائری سپریم کورٹ کے جج سے کرائی جائے۔
دس اپریل کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں انصاف و پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر وسیم سجاد نے اجلاس ملتوی ہونے سے قبل ایک بیان پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ ’فوج کے بارود کے ذخیرے میں اس وقت اتفاقیہ آگ لگ گئی، جب ایک ٹرک سے بارود کو سنبھالا جا رہا تھا۔ ٹرک میں آگ بھڑکی تو اس نے پورے ذخیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس واقعے میں 58 سے زائد افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہو گئے۔ موقع پر موجود جوانوں نے آگ پر قابو پانے کی کوشش کی مگر وہ کوششیں بے سود رہیں اور نتیجے میں بہت سارے دھماکے ہوئے بعض راکٹ وغیرہ جڑوان شہروں کے کئی علاقوں میں جا گرے جس سے بھگدڑ مچ گئی اور جانی و مالی نقصان ہوا۔
آتشزدگی کی وجہ معلوم کرنے کے لیے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
یہ پہلا سرکاری اعلان تھا جس میں باقاعدہ طور پر اوجڑی کیمپ کے حادثے کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔
امریکی محکمہِ دفاع نے پیر کے روز بحریہ کے بم ڈسپوزل سکواڈ پر مشتمل ٹیم اسلام آباد روانہ کر دی تا کہ وہ دھماکے بعد سلامت بچ جانے والے گولہ بارود کو ٹھکانے لگانے میں پاکستانی اہلکاروں کی معاونت کر سکے۔
11 اپریل کو کویت سے واپس پہنچنے کے بعد صدر جنرل ضیا الحق نے جائے وقوعہ کے دورے اور متاثرین سے ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے، آیا یہ واقعہ تھا، حادثہ تھا یا غفلت کا نتیجہ تھا یا سبوتاژ تھا۔
جنرل ضیا الحق نے کہا کہ انکوائری رپورٹ کو لازمی مشہتر کیا جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت عوام سے کچھ نہیں چھپانا چاہتی۔ انھوں نے کہا کہ مسلح افواج اپنی روایات کے مطابق ذمہ دار افراد کے خلاف ضرور کارروائی کریں گی۔
صدر ضیا الحق نے کہا کہ وہ حقائق پر پردہ ڈالنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اتنا گولہ بارود گنجان آباد علاقے میں کیوں رکھا گیا اس بارے میں عرض ہے کہ اوجڑی کیمپ قیام پاکستان سے قبل کا ہے وہاں اسی زمانے سے فوجی یونٹیں رہتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں بھی افواج پاکستان کی کوئی تنصیبات ہوتی ہیں وہاں پوری احتیاطی تدابیر کی جاتی ہیں، اب یہ انکوائری کیمشن طے کرے گا کہ سانحہ تخریب کاری سے ہوا یا غفلت اور لاپرواہی سے ہوا۔‘
جنرل ضیا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ افواہ کہ کیمپ میں ذخیرہ شدہ ہتھیار افغان مجاہدین کو دیے جانے تھے محض افواہ اور قیاس ہے۔‘
حادثے کی انکوائری
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ صدر جنرل ضیا الحق نے اپنی پریس کانفرنس میں جس انکوائری کمیشن کا حوالہ دیا ہے وہ کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں فوجی افسروں پر مشتمل تھا جو کہ فوج اپنی انٹرنل انکوائری تھی لیکن پھر ایک بڑی پیش رفت ہوئی جس نے مستقبل کا منظر ہی بدل ڈالا۔
12 اپریل کو وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر مواصلات محمد اسلم خان خٹک کی سربراہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی۔
اس کمیٹی کے ذمے اوجڑی کیمپ کے حادثے کی وجوہات، کوتاہیوں کا پتہ لگانے اور کوئی ایمرجنسی پلان اگر موجود تھا تو اس پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا، ان امور کی انکوائری کرنے کے لیے وزیر مواصلات اسلم خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی خصوصی کمیٹی میں وزیر اطلاعات قاضی عبدالمجید عابد، وزیر داخلہ نسیم احمد آہیر، وزیر مملکت میر ابراہیم بلوچ اور دفاع کے وزیر مملکت رانا نعیم محمود شامل تھے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کمیٹی کے قیام کے بعد اسی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت رانا نعیم محمود نے واقعے کے حوالے سے جاری بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’میں تحقیقات کی ذمہ داری لیتا ہوں، یہ کمیٹی سات سے دس روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اس دوران ایوان کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاع کو تحقیقاتی کمیٹی کے کام سے آگاہ رکھا جائے گا اور عوام کو حقائق سے آگاہ رکھا جائے گا۔‘
رانا نعیم محمود نے کہا کہ وزارت دفاع اور مسلح افواج کو سانحہ اوجڑی کیمپ پر نہ صرف دکھ ہے بلکہ شرمندگی ہے۔
اسی شام سینیٹ کے اجلاس میں رانا نعیم محمود نے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا بھی حوالے دیا اور کہا کہ ’کور کمانڈر کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی سانحہ اوجڑی کیمپ کے تمام محرکات کا جائزہ لے گی، جس میں تخریب کاری بھی شامل ہے کیونکہ ہم اس حادثے میں تخریب کاری کے امکانات نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘
اوجڑی کیمپ تھا کیا؟
سات فروری 2016 کے ڈان اخبار میں شیخ عزیز لکھتے ہیں کہ اوجڑی دوسری جنگ عظم کے زمانے کا ایک پرانی طرز کا اسلحہ خانہ تھا، جو سرخ اینٹوں پر تعمیر کی گئی عمارتوں پر مشتمل تھا، یہاں فوجی یونٹس قیام کرتے تھے لیکن 1979 میں اسے آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ نے اسلحہ کے ایک عارضی ذخیرے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا، جہاں ضرورت کے وقت ہتھیار لائے اور لے جائے جا سکتے تھے۔‘
شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم نہ بنتے
مستقبل میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے والے شاہد خاقان عباسی واقعے کے وقت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے پانچ سو کلو میٹر دور حفرالباطن میں ایک پراجیکٹ پر کام کے لیے موجود تھے۔
انھیں وہیں اوجڑی کیمپ کے حادثے کی اطلاع ملی جس میں ان کے والد محمد خاقان عباسی ہلاک اور بڑے بھائی زاہد عباسی شدید زخمی ہو گئے تھے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس روز قومی اسمبلی کا اجلاس تھا تو میرے والد جو قومی اسمبلی کے رکن تھے، میرے بھائی زاہد عباسی کے ساتھ جا رہے تھے کہ یہ دھماکہ ہوا اور دو راکٹ فضا میں اڑتے ہوئے آئے اور ان کی پچاس ساٹھ کلومیٹر کی رفتار سے جاتی گاڑی کو سڑک پر ہٹ کیا، جس کے نتیجے میں میرے والد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ بھائی شدید زخمی ہوئے۔
’ان کی جان تو بچ گئی تھی لیکن وہ 14 سال تک کوما میں رہے کیونکہ ان کے دماغ سے منسلک اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا تھا۔‘
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وہ 13 سال سے ملک سے باہر تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ سنہ 1975 میں امریکہ گئے، سات سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران پاکستان آتے جاتے رہے۔
’سیاست میں آنے کا میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی ہم کوئی سیاسی گھرانہ نہیں ہیں۔ والد صاحب ایئر فورس میں تھے پھر انھوں نے کاروبار کیا اور یہ سیاست ان کی زندگی کا تیسرا حصہ تھا۔ اب چلتی گاڑی کو راکٹ لگنا ظاہر ہے کہ اللہ کا کام ہے، ہم نے تو اس کو اسی طرح دیکھا ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ کیونکہ میرا کبھی سیاست کا خیال نہیں تھا۔ میں جنازے پر جب آیا تو حلقے کے لوگوں نے اصرار کیا کہ میں الیکشن میں حصہ لوں۔ میں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن لڑا اور جیت گیا لیکن میرے حلف سے پہلے ہی 29 مئی کو جونیجو حکومت برطرف کر دی گئی اور اس طرح وہ الیکشن ہی ختم ہو گیا۔ سنہ 1988 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ یہ سفر تب شروع ہوا اور اب 33 سال گزر چکے ہیں اور آگے ہی آگے چل رہا ہے۔‘
اوجڑی کیمپ کے حادثے کی انکوائری رپورٹ سامنے لائے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انھوں نے اس معاملے کو چھوڑ دیا تھا۔
’میں نے دیکھا کہ یہاں جو سکیورٹی کی صورتحال ہے، یہاں فوجی حکومتیں رہی ہیں وہ اہنے معاملات کے حوالے سے کوئی بھی غیرجانبدارانہ فیصلہ نہیں ہونے دیتیں اور شاید ہر ملک میں یہی معاملہ ہوتا ہے، اس لیے میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں انکوائری کا مقصد معاملے کے حقائق کو چھپانا اور اصل مجرموں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔
’جب میں وزیر اعظم بنا اور اس سے پہلے بھی 1990 میں جب ہماری حکومت آئی تو کہا گیا کہ رپورٹ سامنے لائیں لیکن میں نے کہا کہ اب کوئی فائدہ نہیں جو ہونا تھا وہ ہو چکا، جو لوگ اس وقت اقتدار میں تھے وہ تقریباً سارے ہی طیارے کے ایک اور حادثے میں دنیا سے چلے گئے۔ تو اس لیے اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیا۔‘
حادثہ کیسے اور کیونکر رونما ہوا؟
صدر جنرل ضیا الحق کے چیف آف سٹاف کے طور پر طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے اور بری فوج کے سابق وائس چیف آف سٹاف جنرل خالد محمود عارف اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس بد قسمت صبح جب کچھ غیر تربیت یافتہ اہلکار ایمونیشن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے تھے تو حادثہ رونما ہو گیا۔
’ہوا یوں کہ 122 ملی میٹر کے راکٹس سے بھرا ایک باکس جس کو انبار سے سلائیڈ کر کے اتارا جا رہا تھا، نیچے گر گیا، ایک دھماکے کے ساتھ زمین سے ٹکرانے کے باعث یہ باکس پھٹ گیا۔ اس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی۔‘
جنرل خالد محمود عارف لکھتے ہیں کہ عام طور پر ایسے راکٹس میں سیفٹی فیوز لگے ہوتے ہیں لیکن ان راکٹس میں سیفٹی فیوز نہیں تھا اور زمین کے ساتھ زوردار ٹکر سے یہ راکٹ دھماکے سے پھٹ گیا اور یہیں سے پھر دھماکوں اور آتش و آہن کا سلسلہ چل نکلا۔
جنرل حمید گل کا مؤقف
سانحہ اوجڑی کیمپ کی وجوہات کے حوالے سے خود راقم الحروف کی ذاتی حیثیت میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل سے بات ہوئی اور وہ ان کا اس معاملے میں موقف معاملے بہت واضح تھا کہ حادثہ کیسے ہوا؟
جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ یہ حادثہ اس وقت ہوا جب افغانستان میں قیام امن کے معاملات حتمی شکل اختیار کر رہے تھے اور یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ان مزید جنگ و جدل نہیں ہو گا تو اس مرحلے پر امریکیوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کی طویل عرصے تک جاری رکھی جانے والی جنگ کے لیے انھوں نے اسلحہ کے انبار پاکستان میں لگائے تھے، جو یہاں سے افغانستان منتقل کیے جا رہے تھے۔
لیکن جنگ کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہے اس اسلحے کی یہاں سے دوبارہ امریکہ منتقلی ممکن نہیں تھی کیونکہ یہ سارا اسلحہ براہِ راست امریکہ سے یہاں نہیں پہنچا تھا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی وینڈرز (اسلحے کے تاجر) نے امریکی ادائیگی پر یہ اسلحہ یہاں تک پہنچایا تھا۔
جنرل حمید گل کہتے ہیں کہ ان میں مصر بھی شامل تھا جہاں کی اسلحہ ساز فیکٹری سے یہ اسلحہ پاکستان پہنچایا جاتا تھا۔
جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ جن دنوں افغان جنگ سمٹ رہی تھی انھی دنوں میں اسلحے کی کچھ پیٹیاں مصر سے پاکستان پہنچی تھیں۔ جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ انھی پیٹیوں میں وہ آتشگیر مادہ تھا، جس نے ’سپارک‘ کیا ور اوجڑی کیمپ کے حادثے کا باعث بن گیا۔
انگریزی اخبار ڈان کے سابق ایڈیٹر اور سینیئر صحافی ایم ضیا الدین کا کہنا ہے کہ اوجڑی کیمپ شہر کے بیچوں بیچ ایک اسلحہ کا ذخیرہ تھا، جس کے بارے میں لوگ نہیں جانتے تھے۔ اس ذخیرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں لایا جانے والا اور یہاں سے لے جانے والا اسلحہ کسی حساب کتاب میں نہیں تھا یعنی بڑے پیمانے پر خورد برد جاری تھی۔
اسی کمزوری کو چھپانے کے لیے کچھ لوگوں نے اس حادثے کی منصوبہ بندی کی۔ ایم ضیا الدین کہتے ہیں کہ پھر یہی حادثہ جونیجو حکومت کی رخصتی میں ایک اہم جواز بھی بن گیا۔
جنرل ضیا الحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات تو جنیوا معاہدے کے طے پا جانے کے بعد سے سامنے آ رہے تھے کیونکہ وزیر اعظم جونیجو کسی بھی صورت میں افغان جنگ کی صورتحال سے نکلنا چاہتے تھے جبکہ ضیا الحق کی سوچ مختلف تھی۔
لیکن اوجڑی کیمپ کے حادثے نے جنرل ضیا الحق کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ محمد خان جونیجو کو حکومت سے نکال باہر کریں۔
اس کے لیے بڑا جواز اوجڑی کیمپ کے حادثے پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ نے فراہم کیا، جس نے حادثے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی تھی بلکہ یوں کہیے کہ اسٹیبلشمنٹ پر فرد جرم عائد کر دی تھی حالانکہ اس سے پہلے آنے والی رپورٹ جو خود عسکری ذمہ داران کی سرکردگی میں بنائی گئی تھی وہ اس حوالے سے بہت مبہم تھی۔
اہم بات یہ تھی کہ پارلیمانی رہنماؤں کی رپورٹ کی بنیاد پر محمد خان جونیجو بطور وزیر اعظم کارروائی کر کے کچھ لوگوں کو نکالنے کا ذہن بنا رہے تھے اور اس کے اشارے بھی انھوں نے دیے تھے اور یہ وہ معاملہ تھا جو جنرل ضیا الحق کے لیے قابل قبول نہ تھا۔
سینیئر صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وزیر مواصلات اسلم خٹک ک سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی کی رپورٹ تیار ہونے کے بعد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کوشش تھی کہ اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا جائے لیکن ان کی اپنی کابینہ کے ارکان اسلم خٹک اور نسیم احمد آہیر ان کے مؤقف کے خلاف ڈٹ گئے۔
دوسری جانب دفاع کے وزیر مملکت رانا نعیم محمود وزیر اعظم جونیجو کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہی وہ معاملہ تھا جہاں سے جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم جونیجو کے درمیان بدگمانیوں کا آغاز ہوا اور پھر معاملہ 29 مئی کو جونیجو حکومت کی برطرفی پر منتج ہوا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جنرل ضیا الحق کا ساتھ دینے کے نتیجے میں ہی اسلم خٹک کو جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد سینیئر وزیر بنایا گیا۔
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اوجڑی کیمپ حادثے کی انکوائری رپورٹ کبھی پبلک نہیں ہوئی اور پاکستان میں ہونے والے کئی سانحات کی طرح سانحہ اوجڑی کیمپ کے اسباب کا تعین 32 سال بعد تک بھی نہیں کیا جا سکا۔
سینیئر صحافی افتخار احمد کہتے ہیں کہ 29 مئی 1988 کو جب محمد خان جونیجو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے جا چکے تھے، انھیں لاہور میں حامد ناصر چٹھہ کے گھر پر ان سے اوجڑی کیمپ کے مسئلے پر بات کرنے کا موقع ملا۔
افتخار احمد کہتے ہیں کہ اس موضوع پر محمد خان جونیجو کی گفتگو کے تین نکات اہم تھے۔
ان دنوں ایسی خبریں عام تھیں کہ امریکی سٹنگر میزائل ایران کے ہاتھ لگنے کا معاملہ عالمی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث تھا۔ یہ وہ میزائل تھے جو امریکہ نے سوویت فوجوں کے خلاف استعمال کے لیے پاکستانی اداروں کے ذریعے افغان مزاحمت کاروں کو فراہم کیے تھے۔
محمد خان جونیجو نے کہا کہ یہ بھی امکان ہے کہ مقدمے کا مدعا ہی ختم کرنے کے لیے یہ واقعہ بنایا گیا ہو تاکہ یہ موضوع ہی بند ہو جائے۔ محمد خان جونیجو کا کہنا تھا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ سٹنگر میزائل کا تنازع ہی اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی وجہ بن گیا ہو۔
محمد خان جونیجو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ تیار تھی اور وہ یہ اعلان کر چکے تھے کہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی لیکن اس سے قبل ہی ان کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
محمد خان جونیجو نے اس وقت کے وفاقی وزیر محمد اسلم خٹک کی سربراہی میں قائم پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے تسلیم کیا کہ اس کے مندرجات پر وزیر مملکت رانا نعیم محمود اور اسلم خٹک کی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔
افتخار احمد اس حوالے سے اپریل 1988 میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل حمید گل سے گفتگو کے حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنرل حمید گل نے ان سے ذاتی گفتگو میں کہا کہ سٹنگر میزائل کے حوالے سے ہونے والی باتیں میرے بھی علم میں تھیں اور میں نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر پہلا کیس یہی ڈیل کیا۔
جنرل حمید گل نے سٹنگر میزائلز کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ کوئی میزائل کسی تیسرے ملک کو نہیں دیا گیا۔ یہ انھی مقاصد کے لیے استعمال ہوا جس مقصد کے لیے دیا گیا تھا۔
دس اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ میں لگنے والی حادثاتی آگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ٹھیک چار روز بعد افغان مزاحمت کاروں اور سوویت یونین کے درمیان جنیوا میں معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت سوویت فوجیں افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہو گئی تھیں۔
اس معاہدے کے روز وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔ یہ بات زبان زد عام تھی کہ جنرل ضیا اس کو بھگدڑ میں طے کیا جانے والا معاہدہ قرار دے رہے ہیں اور اس فیصلے پر وہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے خوش نہیں ہیں۔
کیونکہ محمد خان جونیجو جنیوا میں موجود وزیر مملکت برائے خارجہ امور زین نورانی پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ہر صورت معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان واپس آئیں۔
جنیوا معاہدہ اور اوجڑی کیمپ کی رپورٹ پر بلاامتیاز عملدرآمد جیسے معاملات تھے جن کو ہضم کرنا جنرل ضیا کے لیے آسان نہ تھا اور پھر ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد لاوا بہہ نکلا جس نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکال کر سندھڑی پہنچا دیا۔
وقت اپنے بہاؤ پر چلتا رہا اور 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا الحق بھی جنرل اختر عبدالرحمان سمیت ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ یوں یہ سارا معاملہ پس منظر میں چلا گیا۔
یہ تحریر پہلی مرتبہ سنہ 2021 میں شائع ہوئی جسے آج کے دن سے مناسبت سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔