وہ ’شرمیلے‘ سائنسدان جنھوں نے کائنات کا وہ بڑا معمہ حل کیا جس کی تصدیق کے لیے مزید 50 برس انتظار کرنا پڑا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پروفیسر پیٹر ہگز کو دنیا اس پراسرار نام والے ’گاڈ پارٹیکل‘ کی ایجاد کے لیے جانتی ہے جسے عام سائنسی اصطلاح میں ’ہگز بوسون‘ کہا جاتا ہے۔

پروفیسر پیٹر ہگز نے سنہ 1960 میں یہ انقلابی نظریہ اُس وقت پیش کیا تھا کہ جب وہ یہ وضاحت پیش کرنا چاہتے تھے کہ ایٹمز کا ماس کیوں ہوتا ہے۔

ان کی یہ تھیوری کہ کائنات کو کیا چیز باہم مربوط یا جوڑے رکھتی ہے نے فزکس کے شعبے میں اس پراسرار پارٹیکل کی ایک مشہور 50 سالہ تلاش کو جنم دیا۔

سائنسدانوں کی 50 سال کی کوششوں کے بعد یہ پارٹیکل سنہ 2012 میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے سوئٹرزرلینڈ کے یورپی ادارہ برائے جوہری تحقیق (سیرن) میں دریافت کیا اور اس کے باعث فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکل فزکس مکمل ہوا۔

شرمیلے مزاج کے سائنسدانوں ہگز نے اس وقت سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بہت اچھا محسوس ہوتا ہے جب آپ کی بات کبھی کبھار درست ثابت ہوتی ہے۔‘

اگلے برس ان کے کام کے اعتراف میں انھیں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

پیٹر

پیٹر ہگز برطانیہ کے شہر نیو کاسل میں سنہ 1929 میں پیدا ہوئے تھے۔ برسٹل میں اپنے سکول میں وہ ایک بہترین طالبعلم تھے جنھوں نے اپنے سائنسی کام کے عوض بہت سارے انعامات جیتے، تاہم یہ فزکس نہیں بلکہ کیمسٹری میں تھے۔

انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی لندن کے کنگز کالج میں مکمل کی لیکن انھیں وہاں نوکری نہ مل سکی اور اس مرحلے میں ان کے ایک دوست بازی لے گئے۔ تاہم وہ یونیورسٹی آف ایڈنبرا چلے گئے جہاں وہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ کچھ پارٹیکلز کا ماس کیوں ہوتا ہے؟

ان کی تھیوری کو سائنسی جریدوں میں اس لیے جگہ نہیں مل سکی کیوں بہت کم لوگوں کو یہ تھیوری سمجھ آ سکی تاہم سنہ 1964 میں بالآخر ان کی یہ تھیوری سائنسی جریدے میں شائع ہوئی۔

یہ افواہیں تھیں کہ اس تھیوری کا ’الہام‘ انھیں اچانک ہوا تاہم وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ انھوں نے اس تھیوری پر کئی سال تک کام کیا۔

سائنسدانوں کے دیگر دو گروپوں نے بھی اس دوران اسی موضوع پر اپنا کام شائع کروایا تھا لیکن اس پارٹیکل کا نام ہگز بوسون رکھا گیا اور 50 برس تک سائنسدانوں نے اسے حیران کن اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کی۔

پروفیسر ہگز سنہ 2006 میں یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن انھوں نے جینیوا میں موجود سیرن میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھی ہوئی تھی جہاں سائنسدان لارج ہیڈران کولائیڈر کے ذریعے ہگز بوسون کو ڈھونڈ رہے تھے۔

یہ پارٹیکل ایکسیلیریٹر 10 ارب ڈالر مالیت میں بنایا گیا تھا اور یہ اب تک کی سب سے طاقتور مشین تصور کی جاتی ہے۔ یہ وہ مشین تھی جو ہگز کی تھیوری کی تصدیق بھی کر سکتی تھی اور اسے مسترد بھی۔

لارج ہیڈران

میڈیا میں بوسون کو ’گاڈ پارٹیکل‘ کا نام دیا گیا تھا جو لیون لیڈرمین نامی نوبیل انعام یافتہ کی کتاب کے عنوان سے لیا گیا تھا۔ سائنسدان اس اصطلاح (گاڈ پارٹیکل) کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق شواہد کی بنیاد پر تصدیق شدہ فزکس میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔

سنہ 2012 میں سیرن میں سائنسدانوں نے یہ اعلان کر دیا کہ انھوں نے ہگز بوسون نامی پارٹیکل کو ایجاد کر لیا ہے اور اس پر انھیں پذیرائی بھی ملی۔

تاہم اس سے پہلے ایک نوٹ پیٹر ہگز کو بھی بھیج دیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’پیٹر کو سیرن سیمینار میں شرکت کرنی چاہیے ورنہ وہ پچھتائیں گے۔‘ ہگز کو اپنے سفری منصوبوں کو تبدیل کر کے جنیوا میں یہ اعلان سننے کے لیے جانا پڑا۔

انھوں نے اس موقع پر کہا کہ ’اس کے لیے مجھے بہت انتظار کرنا پڑا، لیکن انتظار اس سے بھی زیادہ طویل ہو سکتا تھا، اور یہ بھی ممکن تھا کہ میں یہ سننے کے لیے دنیا میں موجود ہی نہ ہوتا۔ شروعات میں مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میری زندگی میں ایسی کوئی دریافت ممکن ہو سکے گی یا نہیں۔‘

ایک سال بعد رائل سویڈش اکیڈمی برائے سائنس نے انھیں کال کرنے کی کوشش کی۔ یہ اب ایک لطیفہ بن چکا ہے کہ اکثر اوقات نوبل انعام جیتنے والے وہ فون کال مس کر دیتے ہیں جس پر انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے نوبل انعام جیت لیا ہے۔ لیکن پیٹر ہگز کے پاس اس وقت موبائل فون بھی نہیں تھا۔ اس لیے اس کا اعلان ان کی غیر موجودگی میں کیا گیا۔

ان کے ایک ہمسائے نے انھیں گلی میں روک کر یہ خبر دی کہ انھیں یہ انعام بیلجیئم کے سائنسدان فرانکوا اینگلریٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔

peter higgs

انھیں بوسون کی وجہ سے تو جانا جاتا تھا لیکن وہ شرمیلے اور شہرت سے دور رہنے والوں میں سے بھی تھے اور اپنے کام پر توجہ دیتے تھے۔

آکسفورڈ میں پروفیسر کین پیچ ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی کانفرنس سے واپس آئے جہاں پیٹر کا نام بار بار لیا جا رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پیٹر کو ایک کافی لاؤنج میں دیکھا اور اس سے کہا کہ پیٹر تم بہت مشہور ہو۔‘ پیٹر نے انھیں ایک نحیف سی مسکراہٹ کے ذریعے جواب دیا اور کچھ بھی نہیں کہا۔

ان کے کچھ دوست یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پیٹر ہگز وہ کام نہیں کر سکے جو ان کی صلاحیت رکھنے والے کسی اور ماہر فزکس کو کرنا چاہیے۔

پروفیسر مائیکل فشر، جن کی وفات سنہ 2021 میں ہوئی، کہتے تھے کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ شرمیلے تھے۔ میں یہ کہوں گا کہ وہ اپنے کریئر میں اس سے بہت زیادہ حاصل کر سکتے تھے اور اس معاملے میں انھوں نے اپنے آپ کو روکے رکھا۔‘

Share.

Leave A Reply