گذشتہ برس اکتوبر کے اختتام اور نومبر کی شروعات میں پاکستان میں ہر ٹی وی چینل پر موجودہ اور سابق کرکٹرز بابر اعظم کی کپتانی اور بیٹنگ کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
ان میں سے دو نمایاں کھلاڑی فاسٹ بولر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم تھے۔
محمد عامر نے سنہ 2020 کے اختتام پر کرکٹ بورڈ سے اپنے ’ورک لوڈ‘ سے متعلق اختلافات کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ حاصل کر لی تھی جبکہ عماد وسیم کئی سالوں سے پاکستان کی ون ڈے ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔
عامر اور عماد دونوں کی ہی جانب سے بابر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور عامر نے تو دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ ’کپتانی اہم ہوتی ہے۔ جب تک کپتان کی سوچ تبدیل نہیں ہو گی، نظام کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا نظام کی وجہ سے ابرار احمد کو (ورلڈ کپ سکواڈ میں) شامل نہیں کیا گیا تھا اور فخر زمان کو پہلے میچ کے بعد بٹھا دیا گیا تھا؟‘
عامر کا مزید کہنا تھا کہ ’بابر گذشتہ چار سالوں سے پاکستان کے کپتان تھے تو انھوں نے ہی یہ ٹیم بنائی ہے۔‘
عماد وسیم بھی بابر اعظم کی کپتانی اور اُن کے بیٹنگ سٹرائیک ریٹ کے بارے میں اسی نوعیت کے تنقیدی تجزیے کر رہے تھے۔
تاہم یہ بیانات دیے جانے کے لگ بھگ چھ ماہ بعد آج یہ اعلان کیا گیا ہے کہ عامر اور عماد رواں ماہ کی 18 تاریخ سے نیوزی لینڈ کے خلاف شروع ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بابر اعظم کی کپتانی میں کھیل رہے ہوں گے۔
ان چھ مہینوں کے دوران ’تقسیم کی شکار‘ پاکستان کرکٹ میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائیں تو یہ بھی کوئی انہونی بات نہیں لگتی۔ اس دوران بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے اور پھر واپس کپتان بنانے کے ساتھ ساتھ عماد اور عامر کی اپنی ریٹائرمنٹ واپس لینے کی کہانی بھی شامل ہے۔
چھ ماہ کے فرق سے جاری ہونے والی دو متنازع پریس ریلیز، ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ اور ملٹری اکیڈمی کاکول میں ہونے والی ایک ہنگامی ملاقات شاید ان چھ مہینوں کا خلاصہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
شاید یہ اسی جاری تناؤ کا نتیجہ تھا کہ سلیکٹر وہاب ریاض کو شاہین آفریدی کو کپتانی سے ہٹائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں منگل کو یہ کہنا پڑا کہ ’ہمارے ہاں اتنی چہ مگوئیاں ہو جاتی ہیں کہ چیزیں خراب ہو جاتی ہیں۔۔۔ جیسے سوشل میڈیا پر چل رہا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اگر ہم کاکول نہ جاتے تو یہ ایک دوسرے کو مار دیتے۔‘
نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے لیے 17 رکنی پاکستانی سکواڈ کا اعلان بھی کچھ ایسے ہی ماحول میں ہوا جس میں کم از کم دو سلیکٹرز نے تو بار بار ’ہم رہیں نہ رہیں‘ کا جملہ استعمال کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ’ایک پیج‘ پر ہیں اور مضبوط ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔
سکواڈ میں کون کون شامل ہے؟
سکواڈ میں جہاں محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی نمایاں ہے وہیں عثمان خان، عرفان خان نیازی اور ابرار احمد کی شمولیت بھی اہم ہے۔
سکواڈ میں محمد وسیم جونیئر شامل نہیں ہیں اور انھیں ریزرو کھلاڑیوں کا حصہ بنایا گیا جبکہ حارث رؤف پاکستان سپر لیگ میں کندھے کی انجری کے باعث شامل نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ محمد عامر اور عماد وسیم نے گذشتہ دنوں اپنی ریٹائرمنٹ ختم کر کے پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے دستیاب ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عماد وسیم نے آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی گذشتہ سال نیوزی لینڈ ہی کے خلاف راولپنڈی کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کی تھی۔
محمد عامر نے آخری مرتبہ 2020 میں پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ میں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا تھا۔ محمد عامر نے 50 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں 59 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
دیگر کھلاڑیوں میں بابراعظم (کپتان)، صائم ایوب، محمد رضوان، عثمان خان، افتخار احمد، اعظم خان، عرفان خان نیازی، شاداب خان، عماد وسیم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، زمان خان، محمد عامر، عباس آفریدی، اسامہ میر، فخرزمان اور ابرار احمد شامل ہیں۔
جبکہ ریزرو کھلاڑیوں میں حسیب اللہ، محمد علی، صاحبزادہ فرحان، آغا سلمان اور وسیم جونیئر شامل ہیں۔
سلیکشن کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس سیریز میں ’روٹیشن پالیسی‘ کے تحت زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اظہر محمود کو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا ہے۔
ٹیم کے ساتھ وہاب ریاض بطور سینیئر ٹیم مینیجر، محمد یوسف بیٹنگ کوچ، سعید اجمل سپن بولنگ کوچ اور آفتاب خان فیلڈنگ کوچ کے طور پر شامل ہوں گے۔
’جب آپ کو ذمہ داری دی جاتی ہے تو آپ نے انصاف کرنا ہوتا ہے‘
پاکستان کے نیوزی لینڈ سیریز کے لیے سکواڈ کے اعلان کے بعد سے ظاہر ہے سوشل میڈیا پر خاصی بات چیت جاری ہے اور جہاں بابر اور شاہین سے متعلق کپتانی کے سوال پر وہاب ریاض کے جواب گردش کر رہے ہیں وہیں کچھ ناموں کی عدم شمولیت پر اکثر شائقین کرکٹ کو تحفظات ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’محمد حارث کا نام ورلڈ کپ سکواڈ کے لیے پہلا نام ہونا چاہیے تھا۔ انھیں پہلے بلاوجہ ڈراپ کرنے کے بعد ان کا حوصلہ پست کر دیا گیا ہے اور اب وہ پی ایس ایل کی کارکردگی کے بعد اس ٹیم کا حصہ بھی نہیں ہیں۔‘
ایک صارف عبداللہ نے لکھا کہ ’اعظم خان کو ٹیم میں شامل کر کے حارث سمیت متعدد محنت کرنے والے کرکٹرز کو نظر انداز کیا گیا ہے اور انھیں اس ٹیم کا بھی حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن اُن کی جگہ اعظم خان کو ٹیم میں شامل کر کے فٹنس کے معاملے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘
اسی طرح وہاب ریاض کی جانب سے شاہین کو کپتانی سے ہٹائے جانے سے متعلق جواب پر بھی اکثر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اب وہاب ریاض کو یاد آ گیا ہے کہ شاہین کا ورک لوڈ مینیج کرنا مشکل، اس بات کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب انھیں کپتان بنایا جا رہا تھا اور اکثر لوگ اسی بات پر تنقید کر رہے تھے۔‘
اسی طرح بابر کی کپتانی میں عماد وسیم اور محمد عامر کی سلیکشن کے بارے میں بھی صارفین تبصرے کر رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک بابر پر تنقید کرنے والے اب ان کے ساتھ کیسے کھیلیں گے۔‘
ایک صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران وہاب ریاض اور عبدالرزاق سے سوال کیا کہ کچھ ماہ پہلے تک تو وہ بابر کی کپتانی پر تنقید کرتے تھے اب ان ہی کو کپتان بنا دیا، جس پر عبدالرزاق نے دلچسپ جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’جب آپ ٹی وی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو اور سوچ ہوتی ہے، جب آپ کو ذمہ داری دی جاتی ہے تو آپ نے انصاف کرنا ہوتا ہے۔‘