انڈیا الیکشن 2024: دنیا کے سب سے بڑے انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں اور ہفتوں پر محیط کیوں ہوں گے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

انڈیا میں 2024 کے عام انتخابات، جن کا انعقاد 19 اپریل سے یکم جون تک ہو گا، دنیا کا سب سے بڑا الیکشن ہو گا۔

موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزارت عظمی پانے کی امید رکھتے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں رہے تو شہریوں کی بہت سی آزادیاں سلب ہونے کا خدشہ ہے۔

بی جے پی کے خلاف کون سی جماعتیں کھڑی ہیں؟
انڈیا میں رائے عامہ کو جانچنے والی سروے رپورٹس میں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی اور اس کے اتحادی لوک سبھا یعنی انڈیا کی پارلیمان کے ایوان زیریں کا الیکشن تیسری بار بھی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔

لوک سبھا ہی پھر ملک کے وزیر اعظم کو منتخب کرتی ہے جو کابینہ کے وزرا کا انتخاب کرتے ہیں۔

2019 کے انتخابات میں بی جے پی نے 303 نشستیں جیتی تھیں جب کہ بی جے پی کے انتخابی اتحاد، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، نے مجموعی طور پر 352 سیٹیں حاصل کی تھیں۔

2024 کے الیکشن میں بی جے پی کو بھی سب سے بڑا چیلنج سیاسی جماعتوں کے ایک اتحاد سے ہے جس کی قیادت انڈیا کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کر رہی ہے۔

تقریبا دو درجن جماعتوں نے کانگریس سے ہاتھ ملا کر ’انڈین نیشنل ڈویلیپمنٹل انکلوسیو الائنس‘ بنایا ہے جس کا مخفف ’انڈیا‘ بنتا ہے۔

انڈیا

اس بی جے پی مخالف اتحاد میں شامل اہم سیاست دانوں میں کانگریس کے صدر ملیکارجن کھارگے، راہل گاندھی اور ان کی بہن پریانکا گاندھی ہیں جن کے والد راجیو گاندھی ماضی میں وزیر اعظم رہے ہیں۔

راہل اور پریانکا کی والدہ سونیا گاندھی بھی ایک طاقتور اپوزیشن رہنما ہیں تاہم اس بار توقع ہے کہ وہ انتخابی مہم میں اس شدت سے حصہ نہیں لیں گی جیسے انھوں نے 2019 کے الیکشن میں کیا تھا۔

دلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی بھی اس اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے جبکہ کئی اہم علاقائی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں۔

حالیہ دنوں میں عام آدمی پارٹی کے تین رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات پر گرفتار کیا گیا۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی پر سیاسی انتقامی کارروائیوں کا الزام عائد کیا گیا تاہم بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

انڈیا کے عام انتخابات اہم کیوں ہیں؟
نریندر مودی یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ عالمی طور پر انڈیا کا مقام بڑھتی ہوئی معیشت اور امریکہ سے بہتر تعلقات کے باعث بلند ہوا ہے جس کی ایک وجہ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ انڈیا چین کے خلاف اس کا اتحادی بنے۔

نریندر مودی نے حال ہی میں متعدد فلاحی منصوبوں کا آغاز بھی کیا ہے جن میں انڈیا کے 80 کروڑ شہریوں کو مفت اناج کی فراہمی اور کم آمدن طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ماہانہ 1250 روپے کا وظیفہ شامل ہیں۔

دوسری جانب کانگریس جماعت کا کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے خصوصا نوجوانوں میں۔ کانگریس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے لیے فلاحی وظیفوں میں اضافہ کرے گی اور 30 لاکھ سرکاری نوکریوں کے علاوہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔

کانگریس نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ وہ ’آمرانہ طرز حکومت کی جانب انڈیا کا سفر‘ روک دیں گے۔

انڈیا

واضح رہے کہ انڈیا میں اقلیتی گروہوں کا کہنا ہے کہ انھیں امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے اور نریندر مودی کے دور حکومت میں انھیں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر جینا پڑ رہا ہے، تاہم بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

بین الاقوامی طور پر کام کرنے والے فریڈم ہاؤس نامی گروپ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سے سوال کرنے والے صحافیوں اور دیگر افراد کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس گروپ نے انڈیا کو ’کسی حد تک آزاد‘ ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

انڈیا میں الیکشن اتنا طویل کیوں ہوتا ہے؟
انڈیا کے مختلف علاقوں میں سات دن ووٹنگ ہو گی؛ 19 اپریل، 26 اپریل، سات مئی، 13 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون۔

نتائج کا اعلان چار جون کو کیا جائے گا۔ ملک میں ووٹنگ کے عمل کو اس لیے اتنا پھیلایا جاتا ہے تاکہ سکیورٹی کا عملہ تمام پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کر سکے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے گا جن میں شہریوں کے پاس امیدواروں کو چننے کے ساتھ ساتھ ایک راستہ یہ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہ کہہ سکیں کہ وہ کسی کو بھی منتخب نہیں کرنا چاہتے۔

انڈیا

انڈیا کے انتخابات میں کون ووٹ ڈال سکتا ہے؟
تقریبا ایک ارب 40 کروڑ آبادی کے ساتھ انڈیا بڑا ملک ہے جن میں سے 90 کروڑ 69 لاکھ شہری ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں یعنی دنیا کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ہر آٹھ میں سے ایک شہری انڈیا میں ووٹ ڈالے گا۔

الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے ملک کی شہریت، 18 سال کی عمر اور انتخابی رجسٹر میں نام شامل ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ووٹر شناختی کارڈ بھی درکار ہوتا ہے۔

بیرون ملک مقیم ایک کروڑ 34 لاکھ انڈین شہری بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں خود کو رجسٹر کروانا ہوتا ہے اور وہ انڈیا میں ہی ووٹ دینے کے حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔

انڈیا کی لوک سبھا میں مجموعی طور پر 543 نشستیں ہیں اور کسی ایک جماعت یا اتحاد کو اکثریتی حکومت قائم کرنے کے لیے کم از کم 272 نشستیں جیتنا ہوتی ہیں۔

لوک سبھا کے اراکین کا انتخاب پانچ سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے جس کے دوران وہ اپنے حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں سے وہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ 131 نشستیں ایسی ہیں جو شیڈول کاسٹ یا قبائل کے لیے مختص ہیں۔ یہ انڈیا کی آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ ہیں جن کو حکومت نے نمائندگی کے لیے سیٹیں مختص کر رکھی ہیں۔

انڈیا نے ایک ایسا قانون بھی منظور کر رکھا ہے جس کے مطابق ایک تہائی نشستیں خواتین کو دی جائیں گی تاہم اس قانون کا اطلاق کئی سال تک نہیں ہو گا۔

ووٹ کیسے اکھٹے کیے جاتے ہیں؟
انڈیا رقبے کے حساب سے بہت بڑا ملک ہے اور انتخابی قوانین کے مطابق ہر انسانی آبادی کے قریب پولنگ بوتھ ہونا ضروری ہے۔

2019 کے انتخابات میں گجرات کے گر نیشنل پارک میں ایک دور دراز مقام پر جنگل میں بسنے والے صرف ایک شخص کے لیے بھی پولنگ بوتھ قائم کیا گیا تھا۔

2024 میں سرکاری حکام شمال مشرقی انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کے ایک گاؤں تک 24 میل کا سفر کریں گے تاکہ وہاں بسنے والی واحد خاتون سے اس کا ووٹ لے سکیں۔

Share.

Leave A Reply