ایران کے صدر ڈاکٹر محمد ابراہیم رئیسی 22 اپریل کو پاکستان کے 2 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ اعلی سطح کا وفد بھی آسلام اباد پہنچے گا، سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ ایرانی صدر کی سیکیورٹی ٹیم اسلام آباد پہنچ چکی ہے، اور ان کی متعلقہ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں طے پانے والے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کو پہلے ہی حتمی شکل دی جا چکی ہے ، ایرانی صدر اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ایرانی صدر کے اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ باضابطہ ملاقات و مذاکرات بھی ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری ایرانی ہم منصب ڈاکٹر محمد ابراہیم رئیسی کے اعزاز میں پر تکلف ضیافت کا بھی اہتمام کریں گے، اس کے علاوہ ایرانی صدر کی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بھی ملاقات ہوگی، ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی تجارتی تعاون کے مختلف سمجھوتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر کے دورے میں پاک ایران گیس پائپ لائن اور ممکنہ آزاد تجارتی سمجھوتہ بھی اہم ترین نکات کے طور پر شامل ہیں۔
ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا صدارت سنبھالنے کے بعد یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہوگا، شہباز شریف حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت ہیں۔
یاد رہے کہ پاک ایران کشیدگی اور ایران اسرائیل تنازع کے بعد ایرانی صدر کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کر دیے تھے جس سے خطے میں تناؤ بڑھنے کے آثار نے جنم لے لیا۔
ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ایران نے اسرائیل پر براہ راست ڈرون حملے کیے، حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایرانی حملے کے بعد پہلی بار سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک ہی ’جیتے گا۔‘
13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد خطے میں بڑھتی کشیدگی پر پاکستان نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 16 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔
پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں حملے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ خودمختاری کی خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
دفتر خارجہ نے ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب بھی کیا تھا۔
17 فروری کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ فضائی حملوں میں پاکستان کے کسی شہری کو نہیں بلکہ ایرانی دہشت گرد گروپ جیش العدل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بعد ازاں 18 فروری کو پاکستان نے ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے تھے۔
19 فروری کو پاکستان-ایران کشیدگی کے باعث پاکستانی فضائی حدود استعمال کرکے اوور فلائنگ کرنے والی پروازوں میں ریکارڈ کمی ہوگئی تھی۔
تاہم 21 فروری کو پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد پاکستان کی حدود میں پروازوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔