صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

تین دہائیوں کے بعد اسرائیل پر براہ راست کسی ملک نے حملہ کیا ہے۔ اس سے قبل سنہ 1991 میں عراق نے براہ راست اسرائیل کو اپنا ہدف بنایا تھا۔

ایران کی جانب سے گذشتہ سنیچر کی رات اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز داغے گئے جن میں سے بیشتر اسرائیل کی فضائی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی فضا میں تباہ کر دیے گئے۔

اس رپورٹ میں ہم نے جائزہ لیا ہے کہ ایران اور عراق کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کے وقت عالمی حالات، مقاصد، اہداف اور عالمی ردعمل کیسے مختلف تھے؟

اسرائیل پر عراق کے حملے کا پس منظر اور مقاصد کیا تھے؟

ایران

عراق کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملوں میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے
17 جنوری 1991 کو ’دوسری خلیجی جنگ‘ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحادی افواج نے عراق پر فضائی اور زمینی حملے کیے۔ یہ حملے اگست 1990 میں عراق کی جانب سے کویت پر حملے کے جواب میں کیے گئے تھے۔

اتحادی قوتوں کی جانب سے عراق کے خلاف آپریشن کے آغاز کے صرف ایک دن بعد اُس وقت کے عراقی صدر صدام حسین اپنی اُس دھمکی پر عمل کر دکھایا کہ اگر اتحادی افواج ان کے ملک پر حملہ آور ہوئیں تو وہ اسرائیل کو نشانہ بنائیں گے۔

اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے عراق کی افواج نے صدام حیسن کے احکامات پر اسرائیل پر تقریباً 40 سکڈ میزائل داغے۔

ماہرین نے اس اقدام کو عراق کی جانب سے اسرائیل کو اُس جاری تنازع میں گھسیٹنے کی کوشش قرار دیا تاکہ کویت پر حملے کے باعث عراق کی مذمت کرنے والے عرب اور اسلامی ملکوں کے اتحاد میں تقسیم پیدا کی جا سکے۔ عراق پر حملہ کرنے والی امریکی اتحاد میں بعض وہ مسلم ممالک بھی شامل تھے جو صدام حیسن کے کویت پر حملہ کرنے کے فیصلے کے ناقد تھے۔

اسرائیل پر داغے گئے عراقی میزائلوں کے اہداف تل ابیب، حیفہ پورٹ اور صحرائے نیگیو کے علاقے تھے جہاں جوہری ری ایکٹر واقع ہے۔

سنہ 2021 میں اسرائیل پر عراقی میزائل حملوں کے 30 سال مکمل ہونے پر اسرائیلی فوج نے اپنے ’آرکائیوز‘ کے کچھ حصے شائع کرنے کی اجازت دی۔ جن میں انکشاف کیا گیا کہ 18 جنوری سے 25 فروری 1991 کے درمیان اسرائیل پر عراقی میزائل حملوں کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اسرائیلی میڈیا کی طرف سے شائع ہونے والی ’آرکائیول ویڈیوز‘ سے پتا چلتا ہے کہ عراقی میزائلوں نے عمارتوں کو نقصان پہنچایا تھا جبکہ کچھ فیکٹریوں میں آگ لگ گئی تھی۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اس وقت اسرائیلی شہریوں نے گیس ماسک پہن رکھے تھے اور پورے ملک میں سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

اسرائیل پر ایرانی حملوں کا پس منظر اور مقاصد کیا ہیں؟

تصویر

دمشق میں واقع ایرانی قونصل خانے کو رواں ماہ کے آغاز میں فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں قدس فورس کے کمانڈر محمد رضا زاہدی اور ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈرز سمیت 13 افراد مارے گئے تھے۔

اسرائیل نے اس بات کی کبھی تصدیق نہیں کی ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس سب کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ تھا۔

ایران نے اپنے قونصل خانے پر ہونے والے اس حملے کو اپنی ’خودمختاری‘ پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو بھرپور جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

اور یہ بھرپور جواب 13 اپریل کو دیکھنے کو ملا جب اسرائیل پر بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور ڈرون داغے گئے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان دہائیوں سے جاری گشیدگی کے بیج یہ پہلا موقع تھا جب ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ آور ہوا کیونکہ اس سے قبل دونوں ممالک برسوں سے ’شیڈو وار‘ لڑ رہے ہیں، جہاں دونوں بغیر ذمہ داری قبول کیے خطے میں ایک دوسرے کے اہداف کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے کہا کہ آپریشن، جسے ایران نے ’سچا وعدہ‘ کا نام دیا ہے، کے دوران اس نے گولان کے شمال میں ایک اسرائیلی انٹیلیجنس مرکز اور اسرائیل کی نیواتیم بیس کو نشانہ بنایا، جو صحرائے نیگیو میں ایف-35 طیاروں کا مرکزی ہیڈکوارٹر ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری اور اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران سے داغے گئے ’چند بیلسٹک میزائلوں نے نیواتیم بیس کو معمولی نقصان پہنچایا، لیکن یہ بیس اب بھی فعال ہے۔‘

اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایرانی آپریشن میں نیگیو کے علاقے میں بدوئین گاؤں کی ایک نوعمر لڑکی شدید زخمی ہوئی۔ تاہم ان حملوں کے نتیجے میں ابھی تک کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں موصول ہوئی ہے۔

اسرائیل نے کہا کہ وہ 99 فیصد ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی روکنے میں کامیاب رہا ہے اور ایسا امریکہ کی قیادت میں اسرائیل کے اتحادیوں کی مدد سے کیا گیا۔

روئٹرز نے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اس نے متعدد ایرانی ڈرون مار گرائے اور برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے کہا کہ برطانوی ٹائیفون جیٹ طیاروں نے متعدد ایرانی ڈرونز کو مار گرایا ہے۔

اردن نے بھی کہا کہ اس نے اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی فضائی حدود میں مار گرایا۔

عراقی حملوں پر امریکہ اور اسرائیل کا ردعمل کیا تھا؟

تصویر

عراق کی جانب سے میزائل حملوں کے بعد اس وقت کی امریکی انتظامیہ نے اسرائیل پر شدید سفارتی دباؤ ڈالا تاکہ اسے عراق کے خلاف براہ راست حملہ کرنے سے باز رکھا جا سکے۔

اسرائیل نے عراق کو براہ راست جواب نہ دینے پر رضامندی ظاہر کی لیکن بدلے میں اس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے یورپی اڈوں پر نصب ’پیٹریاٹ اینٹی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم‘ کو فوری طور پر فعال کرے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ’اس دفاعی نظام کی افادیت پر ایک بڑا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ جنگ کے خاتمے کے کئی دہائیوں بعد امریکہ نے ابتدا میں اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ اس کی کارکردگی بہترین تھی لیکن امریکی فوج نے جلد ہی میزائلوں کو روکنے میں ان دفاعی نظام کی کامیابی کی شرح کو کم کر کے 40 فیصد بتایا۔‘

حقیقت میں، اسرائیلی حکام اور امریکی حکومت نے اس معمولی اندازے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ صرف دس فیصد سے بھی کم پیٹریاٹ بیٹریاں سکڈ میزائل کو روکنے اور تباہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

ایرانی حملوں پر امریکہ اور اسرائیل کا ردعمل کیا رہا؟

تصویر

اس حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنے ملک کے ’پختہ‘ عزم کی تجدید کی تاہم امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق امریکہ نے اسرائیل پر واضح کیا کہ وہ ایران کے خلاف کیے گئے کسی بھی جوابی حملے میں براہ راست حصہ نہیں لے گا۔

اہلکار نے مزید کہا کہ بائیڈن نے اسرائیل کو اپنے ردعمل میں محتاط رہنے کی تاکید کی، لیکن انھوں نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ آیا وائٹ ہاؤس نے اسرائیل کو ایران کے خلاف وسیع حملے شروع کرنے سے خبردار کیا تھا یا نہیں۔

بی بی سی میں بین الاقوامی امور کے ایڈیٹر جیریمی بوون کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو واضح پیغام بھیجا کہ ’ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے، اور اسرائیل جیت گیا ہے، لہٰذا اب کسی قسم کی پیشرفت نہ کی جائے۔‘

جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس نے اعلان کر رکھا کہ وہ ایرانی حملے کا جواب ’جس طرح سے چاہے گا اور جس وقت چاہے گا دے گا۔‘

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے کوئی بھی ردعمل خطے میں جاری کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا۔

Share.

Leave A Reply