پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

’وزير اعلیٰ صاحبہ نے ریلیف تھوڑی دیا ہے، انھوں نے تو فرمان جاری کیا ہے کہ روٹی 16 روپے کی کر دو۔ کل سے لے کر اب تک تندوروں پر صرف چھاپے مارے جا رہے ہیں اور چالان کاٹے جا رہے ہیں۔‘

حکومت پنجاب کی جانب سے روٹی کی قیمت میں کمی کے اعلان کے بعد جب بی بی سی نے نانبائی ایوسی ایشن لاہور کے صدر آفتاب گل سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں گیا۔ آفتاب گُل سے پوچھا گیا تھا کہ روٹی سستی کرنے کے اعلان سے قبل انھیں حکومت کی جانب سے کیا سبسڈی یا ریلیف دیا گیا تھا۔

آفتاب گُل نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلیف دینا حکومت کا کام ہے ہمارا نہیں۔ جب ہم نے آٹا مہنگا خریدا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں میں ہمیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا تو ہم حکومت کی خوشنودی کے لیے اپنی جیب سے کیسے عوام کو یہ ریلیف دیں؟‘

یاد رہے کہ حال ہی میں حکومتِ پنجاب کی جانب سے روٹی اور نان کے نئے نرخ مقرر کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے اور صوبے میں روٹی کی قیمت 16 جبکہ نان کی 20 روپے مقرر کی گئی ہے۔

دوسری جانب عوام کو شکایت ہے کہ حکومتی اعلان کے باوجود نانبائی چند علاقوں میں نئے ریٹ پر روٹی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب نانبائی اپنی بے بسی اور مجبوریوں کا رونا روتے دکھائی دے رہیں۔

’16 روپے کی روٹی فروخت کرنا ہمارے لیے مشکل ہے‘

سستی روٹی، نواز شریف، مریم نواز

عوام کی کثیر تعداد روٹی 16 روپے کی نہ ملنے کا دعویٰ کر رہی ہے
محمد سلیم پچھلے 15 سال سے لاہور میں تندور چلا رہے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی نرخوں پر روٹی فراہم کرنے سے اُن کو نقصان ہو گا۔

انھوں نے اپنے تندور کے اخراجات گنواتے ہوئے کہا کہ ’میں نے 20 کلو آٹے کا تھیلا 2200 روپے میں خریدا ہے۔ اس کے بعد نان کے لیے فائن آٹے کا 80 کلو کا تھیلا 11300 روپے میں خریدا ہے۔ گیس کا بل ہی چالیس، پچاس ہزار روپے آتا ہے۔ پھر بجلی کا بل دينا ہوتا ہے۔ اس کے بعد میرے پاس چار ملازم ہیں جن کو میں ماہانہ تنخواہ دیتا ہوں۔ ان سب خرچوں کے بعد پہلے ہی بہت کم بچت ہو پاتی تھی۔‘

انھوں نے حکومت کے اس اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’عوام کی فلاح کے لیے اُن سے صحیح پالیسی تو بنائی نہیں جاتی۔ بس ڈنڈا چلانا آتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وزرا سمیت ضلعی انتظامیہ کے اراکین صرف تندوروں کے چالان کر کے پیسے جمع کر رہے ہیں، کبھی دس ہزار اور کبھی پانچ ہزار روپے کا چالان کر دیتے ہیں۔

حکومت روٹی کی قیمت کس بنیاد پر طے کرتی ہے؟
پنجاب حکومت کی ترجمان اعظمیٰ بخاری نے اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’روٹی کی قیمت چار روپے کم اس لیے کی گئی ہے کیونکہ آٹا سستا ہوا ہے جس کا فائدہ ہم عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ’ہم نے روٹی کی قیمت 16 روپے بلاوجہ ہی مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کے پیچھے پوری کلکیولیشن ہے، جس میں ہر چیز کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ صوبے میں گیس اور آٹے کی قیمت اور دیگر اخراجات ڈال کر روٹی کی قیمت پندرہ روپے اور کچھ پیسے بنتی ہے جسے ہم نے 16 روپے کر دیا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا نانبائیوں کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل کوئی سبسڈی دی گئی کیونکہ اُن کو شکایت ہے کہ ابھی جو آٹے کا سٹاک ان کے پاس موجود ہے وہ انھوں نے مہنگے داموں خریدا تھا؟

اس سوال کے جواب میں اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’نانبائیوں نے کون سا آٹا ذخیرہ کیا ہوتا ہے، جو ان کو نقصان ہو گا۔ جہاں تک رہی بات سبسڈی دینے کی تو اس معاملے میں میں سبسڈی دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ حکومتی تخمینوں کے مطابق روٹی کی اسی قیمت میں ان کی اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔‘

تصویر

پاکستان فلور ملز اسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’روٹی کی قیمت کم ہونے میں حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے۔ الٹا یہ حکومت کی غلط پالیسوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تندور والا اور کسان دونوں ہی نقصان اٹھا رہے ہیں، اور کسان مارکیٹ میں سستی گندم بیچ رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں ضرورت سے زیادہ گندم موجود ہے اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے گندم کی درآمد وقت پر بند نہ کرنا ہے۔

سستی روٹی، نواز شریف، مریم نواز

پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ’روٹی کی قیمت چار روپے کم اس لیے کی گئی ہے کیونکہ آٹا سستا ہوا ہے‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت کے پاس 23 لاکھ ٹن پرانی گندم کا سٹاک موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ انھوں نے کسانوں سے صرف پندرہ سے بیس لاکھ ٹن نئی گندم خریدی ہے۔

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ’حکومت نے گندم کی قیمت 3900 روپے مقرر کی ہے جبکہ کسان 3400 سے 3500 روپے پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہے اور اس کے نتیجے میں آٹے کا تھیلا تقریباً چار سو روپے کم ہوا ہے۔‘

کیا حکومت کوالٹی برقرار رکھ پائے گی؟
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی کیسے بنائے گی کہ روٹی کی قیمت کم ہونے کے بعد اس کی کوالٹی برقرار رہے کیونکہ کئی صارفین یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ 16 روپے والی روٹی کا وزن اس روٹی سے تھوڑا کم ہے جو انھیں 20 روپے میں میسر تھی۔

ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی روٹی کی قیمت کم کی گئی ہے تو اس کے نتیجے میں تندرو والوں کی طرف سے اس کا وزن اور کوالٹی کم کر دی جاتی ہے۔

اس سوال پر ترجمان اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سو گرام کی روٹی کی قیمت 16 روپے مقرر کی ہے اور ہم اس بات کو چیکنگ کے ذریعے یقینی بنائیں گے کہ روٹی کا وزن اور قیمت حکومتی اعلان کے مطابق رہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے اور کسی بھی سکیم کا اعلان کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا وہ اسے پورا کر سکیں گی یا نہیں۔

ان کے مطابق اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اوپر شریف خاندان کے نام کا دباؤ ہے، جیسا کہ ماضی میں ان کے والد اور چچا نے کام کیے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے آپ کو منوانا چاہتی ہیں، تاہم ابھی تک ایسا ممکن ہوتا دیکھائی نہیں دیا ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’صاف پنجاب‘ اور ’نگہبان رمضان سکیم‘ بھی کچھ خاص کامیاب نہیں ہو پائیں۔

عوام تک فائدہ تب ہی پہنچ سکے کا جب بیورکرسی ان سکیموں پر عمل درآمد کروانے میں مستعد ہو۔ سستی روٹی سکیم کے لیے بھی انھیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ لاہور میں بیٹھتا ہے، یہاں سے بیٹھ کر وہ ڈی جی خان، ملتان اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی قمیت کم کرنے میں کامیاب ہوں گی تو ہی اس سے عوام کو پہنچے گا۔

سستی روٹی، نواز شریف، مریم نواز

زیادہ تر لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انھیں ابھی تک روٹی 20 روپے کی مل رہی
کیا حکومت کے لیے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا ممکن ہو گا؟
اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں روٹی اور دال کا کبھی مسئلہ نہیں رہا تھا لیکن اب مہنگائی کی جو صورتحال ہے اس کے بعد یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

انھوں نے انتظامی معاملات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مریم نواز کا یہ اقدام اگر نیک نیتی پر مبنی ہے تب بھی اس کے نتائج اس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک انتظامی امور درست نہیں کیے جائیں۔ ابھی تک مجھے کوئی ایسی جگہ کم از کم لاہور میں تو نہیں ملی جہاں 16 روپے کی روٹی مل رہی ہو۔‘

انھوں نے ماضی کی سکیموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مریم نواز کے چچا شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ دو روپے کی روٹی سکیم کا تجربہ کیا تھا۔ جس کے لیے انھوں نے اربوں روپے کی سبسڈی بھی تھی۔ وہ سکیم بھی اس لیے ہی برقرار نہیں رہ سکی تھی کیونکہ اس وقت بھی گورننس کی مسائل تھے۔‘

انھوں نے مڈل مین کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت وہی سب سے بڑا مافیا ہے جسے کنٹرول کیے بغیر روٹی تو کیا کوئی بھی چیز سستی کروانا مشکل ہے۔‘

دوسري جانب پنجاب حکومت کی ترجمان اعظمیٰ بخاری نے اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پنجاب بھر میں اس پر ہر صورت عمل درآمد کروائیں گے۔ ہم نے حکومت کی رٹ قائم کرنی ہے۔ اس کے’ خلاف جو کوئی بھی کھڑا ہو گا اس کے خلاف قانونی کاروائی بھی ہو گی اور جرمانہ بھی کیا جائے گا۔‘

Share.

Leave A Reply