پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بشام میں گذشتہ ماہ شدت پسندوں کے ایک حملے میں پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام پر مختلف پراجیکٹس سے منسلک چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور انھیں نشانہ بنانے والے شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے 26 مارچ کو بشام میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی اسلام آباد سے داسو جانے والی چینی انجینیئرز کی ایک گاڑی سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ پاکستان میں چینی انجینیئرز یا اہلکاروں پر ہونے والا پہلا حملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی ملک کے مختلف حصوں میں چینی باشندے شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
چین نے پاکستان میں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (یعنی سی پیک) کے تحت مختلف منصوبوں پر 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان منصوبوں پر کام کرنے کی غرض سے چینی انجینئرز اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔
بی بی سی نے پاکستان میں اِس نوعیت کے بڑھتے حملوں کے پیش نظر چینی حکومت کے خدشات کو سمجھنے کے لیے سی پیک منصوبوں سے جُڑے پاکستانی حکام اور علاقائی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
پاکستانی حکام اور ان معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ چین نے اپنے باشندوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات حکومتی سطح پر پاکستانی عسکری اور سویلین حکام کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔
چین کے خدشات کا جائزہ لینے کے لیے ہم نے چین میں شائع ہونے والے اخباروں اور ان معاملات پر رپورٹنگ کرنے والی صحافیوں سے گفتگو کی ہے۔
چین کو کیا خدشات ہیں؟
بیجنگ میں ’چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک‘ (سی جی ٹی این) سے منسلک اور ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبوں پر تحقیق کرنے والے چینی صحافی شین شوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اِس وقت یہاں (چین) سب سے زیادہ توجہ پاکستان میں موجود چینی انجینئیرز کی حفاظت کو دی جا رہی ہے۔ ہر دوسرے اخبار میں تجزیے اس بات پر مرکوز ہیں کہ پاکستان چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کون سے درکار اقدامات کر رہا ہے۔‘
شین شوئے نے کہا کہ ’اس وقت چینی حکام اپنے انجینئیرز کی حفاظت کو لے کر پریشان ہیں اور ساتھ میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے پر پاکستان پر زور بھی ڈال رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن (چین کی) ریاستی پالیسی میں ایک بات واضح ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) پر کام چلتا رہے گا اور دونوں ملک اسے رُکنے نہیں دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر عالمی سطح پر چین کے منصوبوں کو دیکھا جائے تو ’اس وقت دنیا بھر میں بڑھنے والی شدت پسندی سے چین کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ چین کو مغربی افریقہ اور پاکستان میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے بارے میں خدشات ہیں۔‘
چین میں سرکاری میڈیا پاکستان میں رونما ہونے والے شدت پسندی کے واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شین شوئے نے کہا کہ ’چین کے لیے سی پیک اور بی آر آئی منصوبے مکمل کرنا اس کی عالمی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ کسی دوسرے ملک، گروہ یا چند عناصر کو اسے ڈی ریل نہیں کرنے دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ چین پر اپنے ملک میں بھی اپنی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا حل دونوں ممالک کے درمیان ایک مشترکہ حفاظتی پالیسی بنانے سے جڑا ہے۔‘
پاکستان کا مؤقف کیا ہے؟
پاکستان میں 16 اپریل کو منعقد ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز میں فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’افغانستان کی سرزمین پر سرگرم دہشتگرد گروہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑی پریشانی اپنی معیشت کو بہتر کرنا اور ملک میں سرمایہ لانا ہے۔
اس وقت چین کے علاوہ سعودی عرب بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن شدت پسندی کے واقعات نہ رُکنے کی صورت میں پاکستانی حکام کو ایک خوف یہ بھی ہے کہ جو چند سرمایہ کار پاکستان میں کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ بھی کہیں کسی اور ملک کا رُخ نہ کر لیں۔
شدت پسندی اور عسکری معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں سرمایہ کاری کے فقدان کو لے کر پریشانی واضح نظر آتی ہے۔ اس وقت پاکستانی حکام کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ چینی حکام کو باور کروائیں کہ وہ اپنے سکیورٹی پلان کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘
پاکستان کی جانب سے متعدد بار کہا جا چکا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں۔ اعلیٰ حکام کے مطابق وہاں مقیم شدت پسند پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں پر حملے کر رہے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے متعدد بار کہا جا چکا ہے کہ ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں
حکام کا دعویٰ ہے کہ محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے بشام حملے کی تفتیشی رپورٹ میں بھی پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم خیال رہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے چینی انجینیئرز پر بشام میں ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
بشام میں حملے کے بعد سی پیک منصوبوں سے منسلک افسران نے بی بی سی کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان پر ان حملوں کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ایک افسر کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلا حملہ نہیں ہے اور آخری بھی نہیں ہے۔ امکانات ہیں کہ پاکستان اور افغانستان مل کر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔ لیکن اس کے لیے افغانستان اور پاکستان کے آپسی تعلقات بہتر ہونا بھی بہت ضروری ہیں۔‘
حکام بتاتے ہیں کہ اب تک پاکستان میں 15 چینی انجینیئرز مختلف حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستانی افسر نے مزید دعویٰ کیا کہ ’2021 میں داسُو کے مقام پر ہونے والے حملے کے بعد چینی حکام بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے اور اس دوران انھوں نے پاکستان سے سکیورٹی معاملات پر واضح بریفنگ طلب کی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کے اس کے بعد گوادر میں 2022 اور 2023 میں سکیورٹی صورتحال کے بارے میں بھی چین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں سویلین اور فوجی حکام نے مشترکہ میٹنگز کی تھیں۔ اس دوران ایک بات یہ بھی سامنے آئی تھی کہ چینی انجینیئرز کی حفاظت افغانستان کے حالات سے جڑی ہے۔
ای ٹی آئی ایم اور ٹی ٹی پی
پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار ضیا الرحمان کا کہنا ہے کہ ’چینی حکام پاکستان میں جاری اپنے منصوبوں کے بارے میں ہر ایک خبر اور بیان پر نظر رکھتے ہیں۔ اس وقت چینی تجزیہ کار اور سرکاری میڈیا شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دے رہے ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پاکستان اور چین دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملک میں چینی انجینیئرز پر ہونے والے حالیہ حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان ملوث ہے۔
وہیں دوسری جانب چین کے سرکاری میڈیا میں اس واقعے پر نشر ہونے والی خبریں بھی ٹی ٹی پی اور ترکستانی تنظیم ’ای ٹی آئی ایم‘ کو پاکستان میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے۔
ای ٹی آئی ایم کا مطلب ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ہے، جس کے بارے میں چین کا کہنا ہے کہ یہ شدت پسند گروہ چینی شہریوں پر حملہ کرتا رہا ہے۔
چین میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز میں اس سے پہلے بھی متعدد بار پاکستانی طالبان کے ’بٹن خراب‘ گروہ پر اپنے شہریوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس حوالے سے ضیا الرحمان نے کہا کہ ’اس سے پہلے داسُو میں 2021 میں ہونے والے حملے کے بعد بھی اسی گروہ کے خلاف اسی اخبار میں اسی طرح کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چینی اور پاکستانی حکومتیں افغانستان میں موجود گروہوں کے خلاف کارروائی چاہتی ہیں۔‘
گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے حالیہ تجزیے میں چِنگ وا یونیورسٹی کے نیشنل سٹریٹجی انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ڈائریکٹر چیئن فنگ نے لکھا کہ ’یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان نے کیا ہے یا نہیں لیکن اس حملے کا طریقہ کار پاکستانی طالبان کی جانب سے ماضی قریب میں کیے گئے حملوں سے ملتا ہے۔‘
اسی طرح گلوبل ٹائمز میں سات اپریل 2024 کو شائع ہونے والی ایک خبر میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان نے اس واقعے کے بعد ’حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے اسی منصوبے سے جڑے چند افراد کو نوکری سے برطرف کیا ہے۔‘
صحافی ضیا الرحمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان پر یہ دکھانے کا دباؤ بھی ہے کہ وہ چینی شہریوں کی حفاظت کو لے کر سنجیدہ ہے۔‘
جبکہ تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’ان منصوبوں پر کام کرنے والی ٹیم ایک جگہ تو کام کرے گی نہیں، بلکہ چلتی پھرتی رہے گی، ایسی ٹیم کی حفاظت یقینی بنانا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ’اس وقت چینی باشندوں کی سکیورٹی سے متعلق ایک واضح پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔‘
اس سے پہلے چینی حکام نے اپنے انجینیئرز پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی شہریوں کی حفاظت کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ چینی باشندوں کی حفاظت پاکستان کی فوج کے حوالے کی جا رہی ہے۔
صحافی ضیا الرحمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان پر یہ دکھانے کا دباؤ بھی ہے کہ وہ چینی شہریوں کی حفاظت کو لے کر سنجیدہ ہے
کیا سی پیک منصوبے کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں؟
دوسری جانب پاکستان میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے ترجمان ہوں یا پھر سی پیک سے جڑے افسران، زیادہ تر افراد اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کہیں چین سکیورٹی صورتحال کے سبب پاکستان میں اپنے منصوبے ہی نہ بند کر دے۔
ایک سرکاری ادارے کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر حملے کے بعد یہ فکر بڑھ جاتی ہے کہ کہیں سی پیک کو بند نہ کر دیا جائے اور ہر بار پاکستانی حکام کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ واقعات کو اس سمت میں نہ جانے دیں۔‘
لیکن تجزیہ کار اس بات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چینی منصوبوں پر کام رُکنا ناممکن ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپومحسود نے کہا کہ ’سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور چین اس کی ناکامی کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ ہاں، یہ ضرور ہو گا کہ چین اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر پاکستان پر زور دینا جاری رکھے۔‘
شاید یہی وجہ ہے کہ چین سی پیک منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط نظر آتا ہے۔
اس کی مثال دیتے ہوئے احسان اللہ نے کہا کہ ’سی پیک منصوبوں کو لے کر چین کی حساسیت کا اندازہ ماضی میں ہونے والے ایک واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ایک وفاقی وزیر نے سی پیک کے تحت پنجاب میں بننے والے ایک سڑک کے منصوبے پر میڈیا میں تنقید کی تھی۔‘
’تب چینی حکام نے پاکستان کے سینیئر عسکری اور سویلین حکام سے اس کی شکایت کرتے ہوئے وضاحت مانگی تھی۔‘
اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو پر کام کرنے والے صحافی ضمیر اسدی نے کہا کہ ’پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی جڑیں افغانستان سے جڑتی ہیں اور چین، پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی حفاظتی معاملات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ چین کے لیے افغانستان بھی اتنا ہی اہم ہے ’اور وہاں پر بھی وہ بارہا ترکستانی گروہ کی محفوظ پناہ گاہوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔‘