’سلور رنگ کی ہائی لیکس وین جیسے سپیڈ بریکر پر رُکی تو دھماکہ ہوا اور جیسے ہی نیچے اترے تو پیچھے سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے جاپانی شہریوں کو فوری دوسری گاڑی میں سوار کر کے روانہ کر دیا۔‘
یہ کہنا ہے محمد حارث کا جو ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے گارڈ ہیں۔ وہ ان جاپانی شہریوں کی حفاظت پر مامور تھے جن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق جمعے کی صبح خودکش بم حملہ کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق اس حملے میں پانچوں جاپانی شہری محفوظ رہے جبکہ خودکش بمبار ہلاک ہوگیا اور اس کے ایک سہولت کار کی فائرنگ میں ہلاکت ہوئی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس میں دو پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ایک بیان میں اس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔‘
واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جاپانیوں پر حملہ کیسے ناکام ہوا؟
کراچی کے صنعتی علاقے کورنگی انڈسٹریل زون کی مرکزی شاہرہ پر مانسہرہ کالونی کے قریب یہ واقعہ ہوا۔ ایک وین سمیت تین گاڑیوں کے قافلے میں چار جاپانی شہری وہاں سے گزر رہے تھے۔
پولیس کے مطابق یہ حملہ صبح پونے سات بجے کے قریب ہوا ہے۔ نجی سیکیورٹی کمپنی کے اہلکار محمد حارث کے مطابق وہ صبح نیول ہاؤسنگ سوسائٹی زم زمہ سے نکلے تھے اور ان کی منزل لانڈھی پراسیسنگ زون تھی۔ جیسے ہی ان کی گاڑیاں کورنگی انڈسٹریل روڈ پر گل زارہ ہال کے قریب پہنچی تو دھماکہ ہوا اس کے فوراً بعد فائرنگ شروع ہوگئی۔
محمد حارث کے مطابق انھوں نے بھی اپنی گن لوڈ کی اور ہوائی فائر کیے کیونکہ کمپنی کی طرف سے انھیں سیدھا فائر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایس ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور وین تک پہنچنے سے قبل ہی پھٹ گیا جس کے بعد اس کے ساتھی نے فائرنگ شروع کر دی، جس نے پہلے سے ہی پوزیشن لے رکھی تھی۔
پولیس کو جائے وقوع کے قریب نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی ویڈیو بھی ملی ہے جس میں نظر آتا ہے کہ ریت کے ٹیلے کے پیچھے ایک حملہ آور چھاپا ہوا ہے اور فائرنگ کر رہا ہے۔ دو پولیس اہلکار اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک اہلکار اس پر فائرنگ کرتے ہوئے پیش قدمی کرتا ہے اور سیدھے ہاتھ پر دو، تین فائر کرتا ہے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے اہلکار قاسم نے بتایا کہ اسی سڑک پر اٹک پمپ کے قریب ان کی پولیس موبائل کی پوزیشن تھی۔ انھیں ایک دھماکے کی آواز آئی اور چند سیکنڈز کے بعد فائر کی آواز سنائی دی جس کے بعد وہ فوری جائے وقوع پر پہنچ گئے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ ایک دہشت گرد، جس کے پاس ایک رائفل تھی اور مٹی کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اس نے آتے ہی ہم پر فائرنگ شروع کر دی۔ میں نے اس کے ہاتھ کا نشانہ بنایا اور فائرنگ کی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔‘
ایس ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے پندرہ کے قریب گولیاں فائر کی تھیں جس کے خول اور دو میگزین وہاں سے ملے ہیں۔
حملہ آور کون ہیں؟
کراچی پولیس کے مطابق اس واقعے میں دو حملہ آور ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ نجی سکیورٹی کمپنی کا ایک گارڈ ہلاک بھی ہوا ہے۔ جبکہ زخمی ہونے والوں میں کم از کم ایک راہگیر شامل ہے۔
حملہ آوروں کی عمریں 30 سے 35 سال کے درمیان میں ہیں۔ ڈی آئی جی مہیسر کے مطابق خودکش بم حملہ آور کا سر سلامت ہے جبکہ دوسرے کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے جو شناخت میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
بم ڈسپوزل یونٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک حملہ آور کا سر اور ٹانگیں ملی ہیں جبکہ دونوں سے چھ عدد دستی بم، چار رائفل گرنیڈ، تین میگزین اور ایک ایس ایم جی رائفل ملی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک بم رائفل سے منسلک تھا اور ایک حملہ آور کے ہاتھ میں موجود تھا۔
محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق جو اسلحہ ملا ہے اور جس طرح کا حملہ ہوا ہے، اس سے یہ جہادی تنظیموں کا سٹائل نہیں لگتا، تاہم ’علیحدگی پسندوں کا ہوسکتا ہے‘ لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
یاد رہے کہ اس حملے کی اس وقت تک کسی بھی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پولیس کو علاقے سے ایک اور ویڈیو فوٹیج ملی ہے جس میں نظر آتا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد آتے ہیں، مرکزی شاہراہ کے قریب رکتے ہیں۔ ایک شخص جیکٹ پہنتا ہے، اس کے بعد سڑک پر جا کر حملہ کرتا ہے۔
راجہ عمر کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے سے ریکی کی ہوئی تھی۔ انھوں نے سپیڈ بریکر کے پاس حملہ کیا، خودکش حملہ آور ’پینِک‘ میں تھا، اس لیے اس کا امپیکٹ (اثر) نہیں آیا۔
ادھر ڈی آئی جی اظفر مہیسر نے بتایا کہ پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ملزم سہیل پنجگور کا رہائشی تھا جو وہاں مقامی طور پر اداروں کو مطلوب تھا۔
ان کے مطابق جس طرح کی کاررروائی ہے اور جہاں سے ملزم کا تعلق ہے، اس سے یہ ہی لگتا ہے کہ یہ حملہ بلوچ عسکریت پسندوں نے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاپانی کبھی بھی نشانہ نہیں رہے اور لگتا یہی ہے کہ انھیں ’چہرے کے بھول میں ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
’یہ ہی وجہ ہے کہ کسی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔‘
جاپانی شہریوں پر پہلا حملہ
کراچی میں ماضی قریب میں جاپانی شہریوں پر اپنی نوعیت کا یہ پہلا حملہ ہے۔ اس سے قبل چین کے سفارتخانے سمیت سہراب گوٹھ، لیاری اور گلشن حدید میں چینی شہریوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
چینی شہریوں پر حملے کی وجہ سے جاپانی سفارتخانے میں تشویش موجود تھی۔
ایک سینیئر صحافی سے چند سال قبل ایک جاپانی سفارتکار نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا مقامی لوگ چینی، کورین، سینگاپور کے شہریوں اور جاپانی شہریوں میں تفریق کر پاتے ہیں۔ اس صحافی کے مطابق انھوں نے بتایا کہ شکل و صورت سے یہ تفریق مشکل ہوتی ہے۔
کراچی پولیس کے بعض اہلکاروں کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حملہ مغالطے کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔
ڈی آئی جی اظفر مہیسر کا کہنا ہے کہ ایک خطرہ موجود تھا کہ غیر ملکیوں کو ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ ’اس سلسلے میں میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ تمام کو پابند بھی کیا گیا ہے کہ مختلف منصوبوں کے غیر ملکی ملازمین کے لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پولیس، سیپشل سکیورٹی پولیس یا سکیورٹی گارڈ ان کے ساتھ ضرور موجود ہوں۔ حالیہ واقعے کے وقت بھی مسلح سکیورٹی گارڈ موجود تھے جنھوں نے فائرنگ کی۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پولیس سمیت تمام سکیورٹی ادارے چینی شہریوں کی حفاظت کے ایس او پیز پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
وہ نیکٹا ہیڈکوارٹر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی جائزہ کمیٹی کے اہم اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی شہریوں کی حفاظت کے ایس او پیز پر عملدرآمد میں غفلت پر سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔