ایران اور اسرائیل کی جنگ میں حالیہ پیشرفت سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے خطے کی سب سے خطرناک دشمنی کے تازہ ترین دور میں کچھ دیر کے لیے سکوت چھا گیا ہے۔
گو کہ اسرائیل نے ابھی تک باضابطہ طور پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ آیا جمعے کی صبح ایران میں حملے کے پیچھے اس کا کوئی ہاتھ تھا۔ دوسری جانب ایران کے عسکری اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اس بات کو مسترد کیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں کسی بھی نقصان کے امکان کا تمسخر اُڑایا ہے۔
جمعے کو ایران میں حملے کے لیے کن ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا اور اس سے کتنا نقصان ہوا، اس بارے میں بیانات تاحال متضاد اور نامکمل ہیں۔
امریکی حکام ان حملوں میں میزائل کے استعمال کی بات کر رہے ہیں تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وسطی صوبے اصفہان اور شمال مغربی تبریز میں دھماکے چھوٹے ڈرونز کے پھٹنے کے باعث ہوئے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گرائے جانے والے ان چھوٹے سائز کے ڈرونز سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔‘
لیکن یہ سادہ کواڈ کاپٹرز(چھوٹے ڈرونز) اسرائیل کا وہ ترپ کا پتہ ہیں جنھیں ایران کے اندر اس نے سالہا سال اپنی خفیہ کارروائیوں میں بار بار استعمال کیا ہے۔
اور اس بار ان کا اصل ہدف ایران کا صوبہ اصفہان تھا جو ایک عرصے تک اپنے شاندار اسلامی ورثے کے طور پر پہچان رکھتا رہا۔
تاہم بعد میں اصفہان اپنے جوہری ٹیکنالوجی سینٹر اور بڑے ایئر بیس کے لیے زیادہ مشہور ہوا۔ پھر 14 اپریل کو اسرائیل نے ایران کے حملے کے دوران اس کو نشانہ بنایا۔
اس کے علاوہ ڈرونز اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی صنعتی ہاؤسنگ فیکٹریاں بھی ہیں جہاں سے گذشتہ اتوار کو اسرائیل کی سمت سینکڑوں میزائل داغے گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس محدود کارروائی نے ایران کوایک طاقتور انتباہ دیا ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران کے ’دل‘ پر اپنی مرضی سے حملہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس اور اثاثے موجود ہیں۔
اسرائیل نے اپنی حکمت عملی سے اس پیغام کے لیے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے یہودیوں کے مقدس مذہبی دن پاس اوور سے پہلے بھیجا جائے نہ کہ بعد میں جیسا کہ صورتحال پر نظر رکھنے والوں نے وسیع پیمانے پر پیش گوئی کر رکھی تھی۔
امریکی حکام نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر کے فضائی دفاعی ریڈار سسٹم جیسی سائٹس کو نشانہ بنایا ہے تاہم اس حملے کی کامیابی کی تصدیق بھی کسی مصدقہ ذرائع سے نہ ہو سکی۔
لہٰذا یہ حملہ اصل کارروائی کی محض ایک ابتدائی جھلک بھی ہو سکتی ہے تاہم یہ لمحات ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی 85ویں سالگرہ پر غیر ارادی تحفہ ثابت ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے حملے کی سرکاری طور پر تصدیق نہ کیے جانے نے ایران کو اپنے اس حتمی فیصلے پر عمل کرنے کا سیاسی جواز فراہم کیا کہ جب بھی اس کا دیرینہ دشمن حملہ کرے گا، ایران خطرے کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر سخت جوابی حملہ کرے گا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپنی جمعے کے روز کی تقاریر میں ان تازہ ترین واقعات کا ذکر تک نہیں کیا۔
اپنے خطاب میں ایک ہفتہ قبل اسرائیل کے خلاف تہران کے غیر معمولی جوابی حملے کو سراہا لیکن ملک کے وسطی علاقے میں ہونے والے دھماکوں کا ذکر نہیں کیا۔
رئیسی نے تہران کے مشرق میں واقع صوبہ سمنان میں سینکڑوں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن سے ’ہماری اتھارٹی، ہمارے عوام کی فولاد جیسی قوت ارادی اور ہمارے اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔‘
ایران اپنے ’سٹریٹیجک صبر‘ پر برسوں سے فخر کرتا آیا ہے اور کسی بھی اشتعال انگیزی پر فوری اور براہ راست جوابی کارروائی کرنے کی بجائے اس کی پالیسی ایک طویل کھیل کھیلنے پر زور دیتی آئی ہے تاہم اب اس کی حکمت عملی تبدیل ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔
ایران کی فوری جوابی کارروائی کا یہ نیا نظریہ یکم اپریل کو دمشق میں اس کے سفارتی کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے سے شروع ہوا تھا۔ اس کے سینیئر کمانڈر سمیت پاسداران انقلاب کے سات گارڈز ہلاک ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی جنگ کے آخری چھ ماہ کے دوران اپنے اہداف کو بڑھائے جانے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر پر اسرائیل کے حوالے سے مسلسل دباؤ بڑھ رہا تھا۔
اب اسرائیل تہران کے ہتھیاروں کے ذخائر، اہم عمارتوں اور اڈوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ شام اور لبنان جیسے سپلائی کے راستوں پر حملے کر رہا ہے اور اعلیٰ عہدے داروں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
دونوں ممالک کی دہائیوں پر محیط دشمنی اب خفیہ کارروائیوں سے نکل کر چوراہے میں لڑی جا رہی ہے۔
دونوں حریفوں کے لیے اس وقت سب سے بنیادی ترجیح اس صورت پر قابو پانا ہے کہ س کی اپنی سرزمین پر حملہ دوبارہ نہیں ہو گا۔
اس وقت خطے میں اور دور دراز کے دارالحکومتوں میں راحت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔
اسرائیل کے تازہ ترین اقدام نے، اپنے اتحادیوں کی جانب سے جوابی کارروائی کو محدود کرنے کی فکرمندی کے تحت، اس کشیدگی کو فی الحال کم کر دیا ہے۔ ہر کوئی ایک تباہ کن آل آؤٹ جنگ کو روکنا چاہتا ہے۔ لیکن کسی کو کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی خاموشی دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔
غزہ میں اس وقت بھی جنگ زوروں پر ہے جس میں ہزاروں فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
اپنے سخت ترین اتحادیوں کے دباؤ میں آ کر گو کہ اسرائیل نے ضرورت سے زیادہ مقدار میں امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کی لیکن تباہ حال علاقہ اب بھی قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اسرائیلی یرغمالی ابھی تک گھر نہیں پہنچے اور جنگ بندی کی بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ اسرائیل اب بھی حماس کے آخری مضبوط گڑھ رفح میں جنگ سے خبردار کرتا ہے اور اس کو امدادی اداروں کے سربراہان اور عالمی رہنما ایک اور ان کہی انسانی تباہی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ایران کا لبنان میں حزب اللہ کے مضبوط گڑھوں سے لے کر عراق اور شام میں ایران سے منسلک ملیشیا کے ذریعے پورے خطے میں پھیلا ہوا پراکسیوں کا نیٹ ورک اب بھی ہیں روزانہ حملے کر نے کے لیے چوکس ہے۔
پچھلے چند ہفتوں میں، خطے کے تاریک ترین، خطرناک ترین دنوں میں بیک وقت سب کچھ تبدیل ہوا لیکن پھر بھی کچھ نہیں بدلا۔