اسلام آباد کی احتساب عدالت کے حکم پر وفاقی دارالحکومت کے نجی ہسپتال میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کا طبی معائنہ کیا گیا ہے۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کو طبی معائنے کے لیے اڈیالہ جیل سے الشفا ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی ای سی جی، ایکو، اینڈو اسکوپی اور الٹراساؤنڈ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق سابق خاتون اول کو معمولی نوعیت کے گیسٹرو کی تشخیص ہوئی جب کہ دیگر تمام رپورٹس کلیئر قرار دی گئی ہیں، بشریٰ بی بی نے بلڈ ٹیسٹ کے لیے خون دینے سے انکار کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتا نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی کے معدے میں زخم پائے گئے۔
واضح ر ہے کہ گزشتہ روز ہی اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا نجی ہسپتال سے میڈیکل چیک اپ کرانے کا حکم دیا تھا۔
احتساب عدالت اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سماعت کے دوران ان کے وکلا نے دونوں کے طبی معائنے سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں۔
عدالت میں لکڑی کی دیواریں کھڑی کرنے سے متعلق درخواست بھی دائر کی گئی، بانی پی ٹی آئی نے عدالت کے روبرو مؤقف اپنایا تھا کہ کمرہ عدالت میں اضافی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں، یہ اوپن کوٹ والا ماحول نہیں لگ رہا۔
عدالت نے سابق وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیا بشریٰ بی بی کا طبی معائنہ ہوا ہے؟ بانی پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا کہ ڈاکٹر عاصم یونس نے بشریٰ بی بی کے ٹیسٹ الشفا ہسپتال سے کرانے کی تجویز دی تھی تاہم جیل انتظامیہ پمز ہسپتال سے ٹیسٹ کرانے پر بضد ہے، کہا جا رہا ہے کہ جیل مینول کے مطابق سرکاری ہسپتال سے ہی ٹیسٹ کرانے کی اجازت ہے۔
عدالت نے مزید دریافت کیا تھا کیا کہ کیا ڈاکٹر عاصم یونس آج آ سکتے ہیں؟ جس پر بانی پی ٹی آئی کی جانب سے جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر عاصم بہت مصروف رہتے ہیں عدالت حکم دے تو بلا لیتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ انسانی بنیادوں پر بشریٰ بی بی کے ٹیسٹ نجی ہسپتال سے کرانے کا آرڈر کر دیتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹوائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا ہے، بشریٰ بی بی کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے، روز ان کے معدے میں جلن ہوتی ہے۔
عدالت نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سماعت کے دوران پریس کانفرنس سے گریز کیا کریں، بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میرے نام سے باہر کوئی غلط بیان دیا جاتا ہے تو مجھے اس کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اس لیے صحافیوں سے بات کرتا ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کی تکریم کا خیال ضروری ہے، آپ سماعت کے بعد صحافیوں سے بات کر لیا کریں، عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ سماعت کے بعد جیل انتظامیہ میڈیا کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیتی ہے، عدالت سماعت کے بعد صرف 10 منٹ میڈیا سے بات کرنے کی اجازت دے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان اور بشرا بی بی کے طبی معائنے کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کا انڈوسکوپی ٹیسٹ نجی ہسپتال سے کروانے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 17 اپریل کو اسی عدالت میں ہونے والی سماعت کے بعد بانی پی ٹی آئی نے جج ناصر جاوید رانا سے مکالمہ کیا تھا کہ میری بیوی کی طبعیت خراب ہے، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اینڈوسکوپی ٹیسٹ نہیں کروایا جارہا، 6 سال سے میری بیوی بیمار نہیں ہوئی، 4 ہفتے سے بیمار ہے، مکمل طبی معائنہ نہیں ہو رہا، میری بیوی کی صحت کا معاملہ سیریس ہے، اس کے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا جائے۔
بانی پی ٹی آئی نے جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ظاہری معائنے سے کچھ معلوم نہیں ہو سکتا، ٹیسٹ ہوں گے تو حقائق سامنے آئیں گے، مجھے پتا ہے اس سب کے پیچھے کون ہے، حکومت سے خطرہ ہے، حکومتی ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں کر سکتے، عدالت ڈاکٹر عاصم یونس سے معائنہ کروانے کا حکم دے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ عدالت ڈاکٹر عاصم کو طلب کرے ان سے بشری بی بی سے متعلق رائے لے۔
جج ناصر جاوید رانا نے اگلے روز شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹرعاصم یونس سے بشریٰ بی بی کا طبی معائنہ کرانے کا حکم دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بنی گالا میں زہر دیا گیا ہے جس کے نشانات ان کی جلد اور زبان پر موجود ہیں لہٰذا ان کے میڈیکل چیک اپ کا حکم دیا جائے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی کا طبی معائنہ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر سے کروانے کا حکم دیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بشریٰ بی بی کا طبی معائنہ ایک جونیئر ڈاکٹر سے کروایا گیا جس پر ہمیں اعتبار نہیں، بشریٰ بی بی کو زہر دیے جانے کے معاملے پر بھی انکوائری کروائی جائے۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ بشریٰ بی بی کو زہر دیا جارہا ہے اور اس کے ذمہ دار ملک کے طاقت ور حلقے ہوں گے، وہ جہاں رہ رہی ہیں وہ گھر جس کے کنٹرول میں ہے وہ لوگ ہی بی بی کی زندگی کے ذمہ دار ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ہمیں بشریٰ بی بی کی سیکیورٹی کا خدشہ ہے، وہ ایک کمرے میں اکیلے بند ہیں، بی بی نے خود میڈیا کے سامنے سب بتایا ہوا ہے، بی بی کو بنی گالہ میں کس نے رکھا؟ ان کو تو اڈیالہ جیل میں ہونا چاہیے تھا۔