پاکستان نے بیلسٹک میزائلوں سے متعلق امریکی پابندی مسترد کردی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق کے الزامات پر تجارتی اداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا امریکی فیصلہ مسترد کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان، ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے، سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے ایک معروضی میکانزم کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی خبر کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق کے الزامات پر تجارتی اداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے امریکی فیصلے کے بارے میں میڈیا کے سوالات کے ردعمل میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ ’اینڈ یوز اور اینڈ یوزر ویریفکیشن میکانزم‘ پر بات چیت کے لیے تیار رہا ہے تاکہ ایکسپورٹ کنٹرولز کے امتیازی اطلاق سے جائز کمرشل صارفین کو نقصان نہ پہنچے۔

’ماضی میں کئی ایسی مثالیں دیکھیں جہاں صرف شک کی بنیاد پر فہرستیں بنائی گئیں‘
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ تجارتی اداروں کی اس طرح کی فہرستیں ماضی میں بھی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات پر بغیر کسی ثبوت کے سامنے آتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہم امریکا کے تازہ ترین اقدامات کی تفصیلات سے واقف نہیں ہیں، لیکن ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں جہاں صرف شک کی بنیاد پر فہرستیں بنائی گئیں اور یہاں تک کہ اس میں شامل اشیا کسی کنٹرول لسٹ پر نہیں تھیں لیکن انہیں ہر حوالے سے حساس سمجھا گیا۔

وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کے قانونی شہری، تجارتی استعمال ہیں، لہذا برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔

’اس طرح کے امتیازی رویے، دہرے معیار عدم پھیلاؤ کی پالیسیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک معروضی میکانزم کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی دائرہ اختیار میں جوہری عدم پھیلاؤ پر سخت کنٹرول کا دعوی کرنے والوں نے بعض ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کے لیے لائسنسنگ کی شرائط بھی ختم کر دی ہیں، اس کی وجہ سے ہتھیاروں کی تعداد، علاقائی عدم مساوات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ عدم پھیلاؤ اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے مقاصد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنے اور متعلقہ فریقوں کے درمیان معروضی میکانزم کے لیے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خالصتا سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ٹیکنالوجی پر غلط پابندیوں سے بچا جا سکے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتے ہیں، یہ سب جانتے ہیں کہ اسی دائرہ اختیار میں جوہری عدم پھیلاؤ پر سخت کنٹرول کا دعوی کرنے والوں نے بعض ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کے لیے لائسنسنگ کی شرائط بھی ختم کر دی ہیں، اس طرح کے امتیازی رویے اور دہرے معیار عدم پھیلاؤ کی پالیسیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور فوجی عدم مساوات کو بڑھا کر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے مقاصد کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مبینہ تعاون پر 4 کمپنیوں پرپابندی عائد کردی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں میں سے 3 کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے، انہوں نے کہا تھا کہ پابندیوں کا مقصد کسی کو سزا دینا نہیں ہے بلکہ رویے کی تبدیلی ہے۔

تاہم رویے تبدیل کرنے سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ نے کوئی وضاحت نہیں کی تھی کہ آیا ان کا اشارہ کمپنیوں کی طرف ہے یا پاکستان کے رویے کی جانب ہے۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایگزیکٹیو آرڈر (ای او) 13382 کے تحت 4 اداروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔

Share.

Leave A Reply