انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حزب اختلاف کی جماعت کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ لوگوں کی دولت کو ’در اندازوں‘ اور ’بہت سے بچہ‘ پیدا کرنے والوں میں تقسیم کر دیں گے۔
بقول ان کے ’کانگرس کا منشور ہے کہ وہ ملک بھر سے لوگوں سے ان کے اثاثے لے عوام میں برابر تقسیم کریں گے۔‘
نریندر مودی نے دعوی کیا کہ کانگرس پہلے حکومت میں کہہ چکی ہے کہ ہندوستان کے اثاثوں پر مسلمانوں کا حق ہے۔ ’اس لیے اس کا مطلب ہوا کے وہ یہ اثاثے لے کر انھیں بانٹیں گے جن کے زیادہ بچے ہیں اور ’گھس بیٹھیوں‘ میں بانٹیں گے۔‘
انڈیا میں پارلیمانی انتخابات جاری ہیں، جس کےپانچ مرحلوں میں سے ابھی 4 مرحلے باقی ہیں۔ پہلا مرحلہ 19 اپریل کو ہوا تھا اور نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا جائے گا۔ وزیر اعظم مودی کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان پر ’اسلامو فوبک بیانیہ‘ دینے کا الزام لگایا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میری ماؤں اور بہنوں یہ اربن نسل کی سوچ آپ کا منگل سوتر بھی محفوظ رہنے نہیں دے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ایک سرکار کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے ذاتی اثاثوں کا حساب کرے یا ان کے لے لے۔
وزیر اعظم نے اس بیانیے کو ٹویٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے شیئر کیا لیکن وزیر اعظم کے ذاتی ویب سائٹ سے متنازع بیان کے حصے کے انگریزی ورژن کو ہٹا دیا گیا ہے۔
حالانکہ وزیر اعظم نے پیر کے روز علی گڑھ میں ایک انتخابی ریلی میں پھر سے اپنے بیانیے کو دوسرے لفظوں میں دہرایا۔
ان کے اس بیانیے کو بڑے پیمانے پر انڈیا میں مسلم اقلیت کی طرف اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
कांग्रेस की अर्बन नक्सल सोच की नजर अब मेरी माताओं-बहनों के मंगलसूत्र पर है। क्या ऐसी कांग्रेस पर मेरे परिवारजन कभी भरोसा करेंगे। pic.twitter.com/sdPRObgbha
— Narendra Modi (@narendramodi) April 21, 2024
اثاثوں پر حق کی بات کہاں سے شروع ہوئی
مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر قیادت حکومت پر اکثر انڈیا کی اقلیتی برادریوں خصوصاً مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسلم اقلیت کو امتیازی سلوک اور حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور مودی کے دور حکومت میں انھیں ’دوسرے درجے‘ کے شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ان الزامات کی بی جے پی تردید کرتی رہی ہے۔
مودی نے حالیہ تبصرہ ریاست راجستھان میں ایک انتخابی ریلی میں کانگریس پارٹی کے منشور کے بارے میں بات کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ منشور میں کہا گیا ہے کہ کانگریس انڈیا میں خواتین کے سونوں کا ’حساب‘ کرے گی اور اسے لوگوں میں دوبارہ تقسیم کرے گی۔
انھوں نے سامعین سے سوال پوچھا کہ ’کیا آپ کی محنت کی کمائی دراندازوں کو دینی چاہیے؟‘
مودی سابق وزیز اعظم منموہن سنگھ کی 2006 کی تقریر کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں منموہن سنگھ نے اقلیتوں اور دوسرے پسماندہ طبقوں کو بااختیار بنانے کی بات کی تھی تاکہ وہ ترقی کے ثمرات میں حصہ لے سکیں اور کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر ان طبقوں کا پہلا حق ہونا چاہیے۔
منموہن سنگھ کے بیان پر اس وقت بھی تنازع ہوا تھا جب اس وقت کی حزب اختلاف نے الزام لگایا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو ملک کے وسائل پر پہلا حق دینا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر نے دہرایا تھا کہ انھوں نے ایسا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر پسماندہ طبقے کے لیے کہا تھا۔
انھوں نے ایک پریس ریلیز میں واضح کیا کہ وزیر اعظم کا ’وسائل پر پہلا دعوی‘ کا حوالہ ان تمام ’ترجیحی‘ حلقوں کے بارے میں تھا، بشمول ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین اور بچوں اور اقلیتوں کی ترقی کے پروگرام۔
مسلمانوں کے لیے ’متعصّبانہ رویہ‘
وزیر اعظم مودی اس طرح کے بیانات پہلے بھی دی چکے ہیں جب وہ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
سنہ 2002 میں گجرات کے مہلک فسادات کے چند مہینوں بعد ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخاباتی مہم دوران انھوں نے بھیڑ سے پوچھا کہ کیا سرکار کو ’ریلیف کیمپ چلانا چاہیے؟ کیا ہمیں بچے پیدا کرنے کے مراکز کھولنے چاہیں؟‘
نیوز پورٹل دی وائر کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’ہم خاندانی منصوبہ بندی کو مضبوطی سے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پانچ، ہمارے پچیس۔ اس ترقی کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا گجرات میں خاندانی منصوبہ بندی ضروری نہیں؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گجرات کی آبادی بڑھ رہی ہے، غریبوں تک پیسہ نہیں پہنچ رہا ہے؟ وجہ کیا ہے؟‘
مسلم اقلیت کو انڈیا میں اکثر اس دقیانوسی سمجھا جاتا ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ مسخ شدہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ سلوک کا وجہ بنتا ہے۔
واضح کر دیں کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کی شرح میں ہندوؤں سے زیادہ تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ بلکہ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی شرح نمو انڈیا میں دیگر پسماندہ گروپوں سے ملتی جلتی ہے۔
تبصرے پر سیاسی رہنماؤں کی تنقید
انڈیا میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیر اعظم کے تبصرے پر تنقید کی ہے۔ کانگریس لیڈر ملکارجن کھرگے نے اپنی پارٹی کے منشور کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ہر انڈین کے لیے‘ ہے اور یہ سب کے لیے برابری اور انصاف کی بات کرتا ہے۔
انھوں نے مودی کے بیان کو گھبراہٹ اور ’نفرت انگیز تقریر‘ بتایا اور کہا کہ یہ اپوزیشن سے، جس نے پہلے مرحلے کی پولنگ میں بی جے پی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک چال ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو اتنا کم نہیں کیا جتنا مودی جی نے کیا ہے‘۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے کہا کہ ’مودی نے آج مسلمانوں کو درانداز اور بہت سے بچوں والے لوگ کہا اور مودی کے انتخابی نعرے (موی کی گارنٹی) کا حوالے دیتے ہوئے مزید کہا کہ 2002 سے ’مودی کی گارنٹی‘ صرف مسلمانوں کو گالی دینا اور ووٹ حاصل کرنا ہے‘۔
بنگال کی ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمان ساکیت گوکھلے نے مودی کے بیان کو مسلم اقلیت کے خلاف ’نفرت انگیز اور تفرقہ انگیز‘ قرار دیا اور زور دیا کہ لوگ انڈیا کے انتخابی حکام (الیکشن کمیشن آف انڈیا) سے اس تقریر کے خلاف شکایات درج کریں۔
رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔