موٹروے پولیس کے اہلکار پر ’گاڑی چڑھانے والی‘ ڈرائیور جن کی چار ماہ سے شناخت نہیں ہو پائی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

’ہٹو سامنے سے۔۔۔ ہٹو!‘ یہ وہ الفاظ تھے جو ایک نامعلوم خاتون ڈرائیور نے کہے جس کے بعد انھوں نے موٹروے پولیس کے اہلکار پر بظاہر جان بوجھ کر گاڑی چڑھا دی۔

اس واقعے کی ویڈیو پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔

چار ماہ سے زیادہ عرصے پرانا یہ واقعہ صوبہ پنجاب کے علاقے نارتھ چکری کا ہے جس پر اقدام قتل اور کارِ سرکار میں مداخلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم راولپنڈی پولیس کی جانب سے اب تک ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔

پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خاتون کی شناخت کے لیے گاڑی کے نمبر کے ذریعے سے متعلقہ ادارے سے مدد حاصل کی جا رہی ہے۔

ترجمان راولپنڈی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ملزمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔‘ جبکہ ایس پی پوٹھوہار نے یقین دلایا ہے کہ ’قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔‘

ادھر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ویڈیو میں کیا ہے؟
سپیڈنگ پر ایک گاڑی کو روکنے کے بعد یہ ویڈیو بظاہر موٹروے پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے ہی بنائی گئی ہے۔

اس میں ڈرائیور اور موٹروے پولیس اہلکار کے درمیان تلخ کلامی سنی جا سکتی ہے جس میں خاتون کہتی ہیں کہ ’خبردار جو بکواس کی۔ آپ نے مجھے ’تو‘ کیسے کہا؟ اپنے یونیفارم کا احترام کیا کریں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اپنی اکیڈمی میں جائیں اور سیکھیں۔ جاہل کہیں کا۔۔۔‘

اس دوران موٹروے پولیس کا اہلکار انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ان کی ایک نہیں سنتیں۔

پھر وہ اپنی گاڑی کے سامنے کھڑے ایک اہلکار کو سامنے سے ہٹنے کا کہتی ہیں جس پر وہ سر ہلا کر نہیں کا اشارہ کرتا ہے۔

اس پر خاتون ایکسلریٹر پر پیر دبا کر تیزی میں گاڑی چلا دیتی ہیں اور اہلکار اس سے ٹکرا کر ایک طرف گِر جاتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹروے پولیس کی ایک کار مذکورہ گاڑی کا پیچھا کرتی ہے۔ تاہم اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ انھیں پکڑنے میں ناکام رہی تھی۔

پولیس کے مطابق زخمی ہونے والے اہلکار کو اس کے بعد مقامی ہسپتال میں لے جا کر ان کا علاج کروایا گیا۔

سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ اکثر صارفین کی رائے ہے کہ اس حرکت پر ڈرائیور کو کڑی سزا دی جانی چاہیے۔

شعیب نامی صارف نے لکھا کہ ’میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگ کچھ سو روپے کے چالان پر لڑتے کیوں ہیں۔ چالان کٹوائیں اور آگے بڑھیں۔ کیا آپ نے محض اس لیے کسی پر گاڑی چڑھا دی تاکہ آپ کچھ سو روپے کے چالان سے بچ سکیں۔‘

سجاد اسلم نامی صارف کہتے ہیں کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جب امیر اورغریب کے لیے الگ قانون ہو گا تو ایسے ہی ہو گا۔ قومیں اسی لیے تباہ ہوتی ہیں کہ چھوٹے چوروں کو سزا ہو جاتی ہے اور بڑے مجرموں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘

شاہد امین پوچھتے ہیں کہ ’کیا اس خاتون کے خلاف ایکشن لیا جائے گا یا ان سے بھی معافی مانگی جائے گی؟‘

motorway

واقعے پر درج کیا گیا مقدمہ جس میں کئی ماہ تک ملزم کی شناخت نہ ہو سکی
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق یہ واقعہ یکم جنوری 2024 کا ہے جس پر راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں 2 جنوری 2024 کو (ریش ڈرائیونگ، کار سرکار میں مداخلت اور اقدام قتل کے الزامات کے تحت ’نامعلوم خاتون‘ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

مقدمہ موٹروے پولیس اہلکار محمد صابر کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جس میں متن میں لکھا ہے کہ وہ نارتھ چکری میں اپنے ساتھی اہلکار محمد زاہد کے ہمراہ فرائض ادا کر رہے تھے کہ جب ایک گاڑی (ہنڈا سوک) 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے آ رہی تھی جبکہ حد رفتار 120 کلومیٹر تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ سپیڈنگ پر گاڑی کو سکواڈ نے روکا مگر نہ رُکی۔ ’نامعلوم خاتون انتہائی غفلت اور لاپرواہی کے ساتھ زگ زیگ کرتے ہوئے چلا رہی تھیں۔‘

موٹروے پولیس نے اس گاڑی کو ٹول پلازے پر روکا تاکہ سپیڈنگ پر چالان کیا جائے۔

مقدمے کے متن میں درج ہے کہ ’اس گاڑی کو ہم نے اپنے ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ مرکزی ٹول پلازے پر روکا اور ڈرائیور کو آگاہ کیا کہ وہ تیز رفتاری سے جا رہی ہیں اور ان کے کوائف معلوم کرنا چاہے تو خاتون نے اپنے کوائف نہیں بتائے اور ساتھی اہلکار محمد زاہد کے ساتھ بدتمیزی کرنے کے علاوہ غلیظ الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ خاتون ’کار سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے ٹول پلازے پر لگے بیریئر کو ہٹا کر ٹول پلازے کا ٹیکس ادا کیے بغیر گاڑی کو بھگا کر لے گئیں۔‘

اس کے علاوہ موٹر وے پولیس کے اہلکار کا کہنا ہے کہ نامعلوم خاتون نے ’گاڑی انتہائی تیز رفتاری، غفلت و لاپرواہی سے چلائے ہوئے اور بہ قتل گاڑی مجھ پر چڑھا کر مجھے زخمی کر کے اور کارِ سرکار میں مداخلت کر کے فرار ہو کر اور بوتھ پر لگے بیریئر کو نقصان پہنچا کر ارتکاب جرم بالا کیا ہے۔‘

ادھر راولپنڈی پولیس کے مطابق مقدمہ درج کر کے واقعے کی تفتیش جاری ہے۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ خاتون کی شناخت کے لیے گاڑی کے نمبر کے ذریعے سے متعلقہ ادارے سے مدد حاصل کی جا رہی ہے۔

انھوں نے یقین دلایا کہ ’واقعہ میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔‘

واضح رہے کہ اس واقعے کو چار ماہ گزر چکے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے تاحال نامعلوم خاتون کی شناخت نہیں کی جا سکی ہے۔

Share.

Leave A Reply