ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے تین روزہ دورے کے دوران آج (23 اپریل) کراچی میں موجود ہیں جہاں انھوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور پاکستانی عوام سے اپنے ’خصوصی تعلق‘ کے حوالے سے بات کی ہے۔
اپنے دورے کے پہلے روز (پیر) انھوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں جن کے دوران سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں اضافے، نئے اقتصادی زونز قائم کرنے سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور رواں ماہ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر براہ راست فضائی حملے کیے ہیں۔
یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز رواں ماہ کے اوائل میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر ہونے والے مبینہ اسرائیلی حملے سے ہوا۔ اس کے جواب میں ایران کی جانب سے گذشتہ ہفتے اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا گیا جس پر ردعمل دیتے ہوئے جمعے کے روز ایران کے شہر اصفہان میں مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب سے فضائی حملہ کیا گیا۔
صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ رواں برس جنوری میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب دونوں ممالک نے ’دہشتگردوں کے خلاف کارروائی‘ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل حملے کیے تھے۔ دونوں ممالک ماضی میں بھی ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
اس دورے کے موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے مگر ایرانی صدر کی جانب سے کی جانے والے اہم ملاقاتوں کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا تذکرہ غائب رہا۔
نہ تو اس کا کوئی حوالہ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں سامنے آیا اور نہ ہی کسی وزیر یا مشیر کے بیان میں اس کا تذکرہ ملا۔
اس صورتحال کے بعد متعدد سوالات نے جنم لیا کہ اس اہم منصوبے پر خاموشی کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا پاکستان مبینہ ممکنہ امریکی دباؤ میں اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام ہے؟ اور اگر اس اہم منصوبے پر ہی بات نہیں ہو رہی تو دونوں ممالک کو ایرانی صدر کے اس دورہ پاکستان سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
مگر ان سوالات کے جوابات کی طرف جانے سے قبل ایک نظر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق تفصیلات پر ڈال لیتے ہیں۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کیا ہے؟
اس منصوبے کا آغاز سنہ 2013 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری ایام میں ہوا تھا
پاکستان اور ایران کے درمیان 7.5 ارب ڈالرز مالیت کا گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح سنہ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اُس وقت ہوا تھا جب اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایران کا دورہ کیا۔ ابتدائی طور پر پاکستانی حکام کی جانب سے اس منصوبے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان کے توانائی کے بحران کا حل قرار دیا گیا تھا۔
تاہم اس منصوبے کے افتتاح کے کچھ ہی عرصے بعد ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
سنہ 2013 میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس منصوبے پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ تاہم پی ڈی ایم حکومت کے دور میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس منصوبے پر کام کے لیے جنوری 2023 میں ایک کمیٹی قائم کی تھی اور پاکستان کی سابق نگران حکومت کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد رواں برس فروری میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کی جانب سے اس منصوبے کے 80 کلومیٹر کے ایک حصے کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔
مگر اس کے فوراً بعد اس منصوبے پر امریکہ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا، جس کی وجہ ایران پر بین الاقوامی پابندیاں قرار دی گئی تھیں اور امریکہ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ منصوبے پر کام کرتے ہوئے پاکستان کو بھی معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جبکہ اس منصوبے پر تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکل صورت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ ایک طرف اپنے حصے پر پائپ لائن بچھانے کا کام نہ کرنے پر ایران کی جانب سے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں امریکہ کی جانب سے پہلے سے کمزور پاکستانی معیشت پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان اور ایران کی گیس لائن منصوبے پر خاموشی کی وجوہات کیا ہیں؟
بی بی سی نے اس متعلق حکومت کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن وفاقی وزیر پیٹرول و گیس مصدق ملک اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے متعدد بار رابطہ کرنے کی درخواستوں کے باوجود اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کی جانب سے ایران، پاکستان گیس لائن منصوبے کا تذکرہ نہ کرنا ایک عقلمندانہ اقدام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ پاکستان پر امریکی پابندیوں کا دباؤ موجود ہے، لیکن میرے خیال میں یہ دونوں ممالک کا دانستہ فیصلہ ہے کہ اس دورے کے دوران اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسی چیز پر بات کی جائے جو شروع ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہی نہیں۔ پاکستان کی بھی اس منصوبے سے متعلق پوری تیاری نہیں ہے اور ایران کی جانب سے بھی گیس کی قیمت کے تعین پر مسئلہ ہے، پاکستان کے ایران سے اس منصوبے سے متعلق دو مطالبے ہیں ایک گیس کی قیمت کا دوبارہ سے جائزہ لینا اور دوسرا گیس کی مستقل فراہمی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق دونوں ممالک میں کچھ اہم مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں، پاکستان کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پیسے درکار ہیں جبکہ گوادر میں ابھی تک اس پائپ لائن بچھانے سے متعلق زمین کی الاٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا خدشہ ہے۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’پاکستان نے ابھی تک امریکہ سے اس متعلق باضابطہ مذاکرات شروع نہیں کیے ہیں کہ گیس پابندیوں کے زمرے میں نہیں آتی اور یہ کہ پاکستان پابندیوں کی زد میں آئے بغیر اس منصوبے کو کیسے آگے بڑھا سکتا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ’ایران کی طرف سے اس منصوبے کے تحت گیس کی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے۔ اب تک ایران نے اس معاملے میں تاخیر کے باوجود خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بروقت تعیمر نہ کرنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔‘
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی کی وجہ دونوں ممالک کے ذمہ دار حکام ہی بہتر بتا سکتے ہیں تاہم بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک اس منصوبے سے متعلق معاملات کو موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر نہیں لانا چاہتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر ابھی دونوں ممالک کی جانب سے کچھ مسائل ہیں اور میرے خیال میں دونوں ممالک نے یہ فیصلہ کیا ہے جب تک اس متعلق معاملات کو حل نہ کر لیا جائے تب تک اسے بلاوجہ عوامی سطح پر نہ لایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں یہ دونوں ممالک کا سوچا سمجھا اقدام ہے کہ اس منصوبے پر قبل از وقت کوئی بات نہ کی جائے۔
پاکستان، ایران تعلقات: اسرائیل ایران کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت کیا ہے؟
ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس دورے کا اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ دورہ اس وقت شیڈول کیا گیا تھا جب رواں برس کے آغاز میں دونوں پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق ’میرے خیال میں پاکستان اور ایران کے عالمی سطح پر نظریات ایک جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان عالمی فورمز پر ایرانی نظریات کا ساتھ دیتا ہے، لیکن جغرافیائی قربت، ثقافتی اور مذہبی تعلقات، سرحد پار دہشت گردی اور سمگلنگ کے مسائل دونوں ممالک کو قریب لاتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس دورے کا بنیادی مقصد معاشی معاملات پر اکٹھا ہو کر چلنے پر تھا۔ پاکستان ایران سے برآمدات کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور چاہے کشیدگی بھی ہو لیکن ہماری سرحدوں پر قائم بازاروں میں ترقی دیکھی گئی ہے۔ اور اس دورے میں اس غیر روایتی تجارت کو چینلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں تعلقات میں بہتری کی سیاسی خواہش موجود ہے لیکن اس میں اہم کردار دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت ادا کرے گی۔
سابق سفارتکار ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی بھی رائے میں ایرانی صدر کا یہ دورہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی سے بہت پہلے طے ہوا تھا۔ اور یہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخی کے بعد طے کیا گیا تھا۔
’اس پس منظر میں یہ دورہ ضروری اور انتہائی اہمیت کا حامل اس لیے بھی تھا کہ دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا اُسے دوبارہ سے بحال کرنے کی بہت ضرورت تھی۔‘
امریکہ اور دیگر مُمالک کے اس دورے پر خدشات سے متعلق سابق سفارتکار کا کہنا تھا کہ ’ہر مُلک اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کرنے پر غور کرتا ہے اور اس پر کام کرتا ہے۔ اگر امریکہ کو پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پر خدشات ہیں تو یہ اُن کے مُلک کا اندرونی معاملہ ہے، ہمارے یعنی پاکستان کے مفاد میں تو یہ ہے کہ اُس کے تعلقات اُس کے ہمسایہ مُلک کے ساتھ اچھے رہیں۔‘
اس دورے سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟
ہما بقائی نے اس بارے میں تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ایران اپنی سفارتی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ ہر اس ملک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے جس کے ساتھ اس کے سفارتی و اقتصادی تعلقات بہتر ہونے کی گنجائش موجود ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اگر خطے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس وقت ایک تجارتی اور سیاسی بلاک کا وجود ابھر رہا ہے جس میں چین، افغانستان اور ایران موجود ہیں اور ایسے میں پاکستان کا اس سے باہر رہنا ممکن نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اب بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں عالمی طاقتیں پھنسی ہوئی ہیں اور شاید ہم بلاک سیاست کی طرف واپس جا رہے ہیں جہاں ’مڈل پاورز‘ اگر اپنی حکمت عملی کا درست انداز میں استعمال کریں تو اس کو اپنے مفادات کے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ایسے میں پاکستان اس سے باہر رہنا کیوں چاہے گا؟
ڈاکٹر میلحہ لودھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کے ایران کے ساتھ تعلقات مستحکم اور مضبوط رہیں، کیونکہ مشرق اور مغرب میں موجود دونوں مُمالک یعنی افغانستان اور انڈیا کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تو ایسے میں پاکستان ایران کے اچھے تعلقات دونوں مُمالک کے لیے ضروری ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ظاہر ہے کہ امریکہ پاکستان اور ایران کے اچھے اور مستحکم تعلقات سے خوش نہیں ہو گا اور یہ اُن کے مفاد میں نہیں ہو گا مگر پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ اُس کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔‘