سرکاری ادارے ملازمین کو پال رہے، ان کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں، چیف جسٹس

Pinterest LinkedIn Tumblr +

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سرکاری ادارے ملازمین کو پال رہے ہیں، ان کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کنٹریکٹ ملازمین کو برطرف کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل کی جانب سے اطمینان بخش جواب نا ملنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا ظہار کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں ، سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں؟ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے، صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں، حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں ، ایک ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں، سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنی ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے، غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں ؟

وکیل درخواست گزار نے ایڈووکیٹ ملک نعیم نے بتایا کہ صدر اور گورنر کے پیکج کے تحت بھرتیاں ہوئیں تھیں، حکومت نے خود پراجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی ، حکومت وہ خود چلائیں، کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر، صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے ؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے ؟

انہوں نے کہا ہم آئین کی دھجیاں اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ جسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کب ہوا تھا یہ کس نے کیا تھا ؟

وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ جنرل مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئی پیکج ملا تھا ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی، صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟

یاد رہے کہ جولائی 2016 میں واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی واسا کے 1 ہزار 300 سے زائد کنٹریکٹ اور ورک چارج ورکرز اور حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مختلف یونٹس کے مزید 500 ریگولر ملازمین کو برطرف کر دیا گیا تھا۔

بعد ازاں حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) کے برطرف ملازمین نے ایچ ڈی اے کے باہر احتجاج کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایچ ڈی اے میں کم سے کم اجرت پر کنٹریکٹ ملازمین کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن محکمہ نے تصدیق کرنے کے بجائے انہیں بغیر کسی وجہ کے نوکری سے فارغ کر دیا۔

بعد ازاں واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر نے برطرف ملازمین میں سے 60 فیصد کو بحال کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ باصلاحیت کارکن تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا تھا کہ جلد ہی بحال کیے جانے والے افراد کی فہرست کو تقریباً حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

Share.

Leave A Reply