ملکی تاریخ میں پہلی بار غیر معیاری ادویات کی تیاری پر کمپنی سربراہ کو سزا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

راولپنڈی ڈرگ کورٹ نے دوا ساز کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) اور دیگر ملازمین کو ایک دوا کے ’غیر معیاری‘ پائے جانے کے مقدمے میں قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنادی، یہ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا پہلا کیس ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلیکسو اسمتھ کلائین (جسے پاکستان اور دنیا بھر میں سب سے معتبر اور معروف کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے) نے اپنے ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلٹ فورم پر اپیل کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق دوا کے ’غیر معیاری‘ ہونے سے متعلق شکایت صوبائی انسپکٹر آف ڈرگز تحصیل حسن ابدال نے دائر کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 2018 میں عظمیٰ خالد نامی ایک اور ڈرگ انسپکٹر نے گلیکسو اسمتھ کلائین کی جانب سے تیار کردہ ’سیپٹران‘ نامی دوا (بیچ نمبر ایچ ایس بی ڈی ایس) کا نمونہ لیا، یہ نمونہ راولپنڈی کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو بھیجا گیا جس میں یہ دوا غیر معیاری پائی گئی۔

عدالت نے فروری 2023 میں کمپنی کے نمائندوں پر فرد جرم عائد کی، تاہم تمام ملزمان نے الزامات کا اعتراف نہیں کیا اور انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گلیکسو اسمتھ کلائین جس کی مجموعی مالیت 82.38 ارب ڈالرز ہے، کے پاس پیداوار اور کوالٹی کنٹرول یونٹس قائم ہیں، تاہم اس کے باوجود اس نے دوا کی مارکیٹنگ کو بند کرنے کے لیے کوئی اقدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اس نے غیر معیاری ادویات کی تیاری کے حوالے سے کوئی انکوائری کی۔

عدالت نے کمپنی کی سی ای او، پروڈکشن منیجر، کوالٹی کنٹرول منیجر اور وارنٹر کو مجرم قرار دیا۔

سی ای او کو عدالت کی جانب سے سماعت ملتوی ہونے تک قید اور مجموعی طور پر 47 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں انہیں 3 ماہ قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جب کہ دیگر 3 افراد کو 2، 2 سال قید اور 6 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں انہیں 6، 6 ماہ کی اضافی قید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

گلیکسو اسمتھ کلائین کے سیکریٹری آغا سلمان تیمور نے کہا ہے کہ کمپنی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلٹ فورم میں اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ گلیکسو اسمتھ اور کارروائی میں ملوث افسران نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کا کوئی غلط نہیں کیا، ہم مذکورہ فیصلے کو اپیلٹ فورم کے سامنے چیلنج کرنے کے لیے فوری اقدامات کر رہے ہیں۔’

’ اس طرح کا فیصلہ پہلے کبھی نہیں سنا’
یہ فیصلہ ڈرگ کورٹ راولپنڈی کے چیئرمین ندیم بابر خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سنایا جس کے بعد فارماسیوٹیکل سیکٹر اور ہیلتھ کمیونٹی کے اندر ایک بحث چھڑ گئی۔

پاکستان ڈرگ لائرز فورم کے صدر نور محمد مہر نے وضاحت کی کہ ادویات کے معیار میں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ’سادہ الفاظ میں دوا میں مالیکیولز کی درست فیصد تھی لیکن ٹیسٹنگ کے دوران دوا کے گھلنے کی مدت درست نہیں تھی، دوا گھلنے میں زیادہ وقت لے رہی تھی۔ ’

دوا کے گھلنے سے متعلق سوال پر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جو ادوایات کوٹ ہوتی ہیں انہیں پیٹ میں گھلنے میں 30 منٹ لگتے ہیں اور دیگر ادوایات 60 منٹ میں گھل جاتے ہیں، اگر ایک دوا گھلنے میں زیادہ وقت لیتی ہے، تو اسے بیماری کے علاج میں زیادہ وقت لگے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تمام ادویات کو امریکی فارماکوپیا کے معیارات کے مطابق گھلنا چاہیے اور کسی بھی فرق کی صورت میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘

انہوں نے خدشہ طاہر کیا کہ یہ فیصلہ ڈرگ ایکٹ میں تبدیلی اور اس میں موجود سزاؤں کو کم کرنے کے لیے دباؤ کا باعث بن سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مستقبل میں قید کی سزا کی بجائے صرف جرمانے ہی ہوں گے۔

پاکستان ڈرگ لائرز فورم کے صدر نور محمد مہر نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کے منفی نتائج ہو سکتے ہیں، جس کا خمیازہ بالآخر مریضوں کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ مستقبل میں قوانین میں نرمی ہو سکتی ہے اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) غیر موثر ہو سکتی ہے، انہوں نے کیس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی تجویز دی۔

ایک دوا ساز کمپنی کے سربراہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے اس طرح کا فیصلہ پہلے کبھی نہیں سنا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کسی پریشانی کی وجہ سے کیا گیا ہے، کیونکہ عدالت نے بار بار نوٹس جاری کیے لیکن کمپنی نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا، کمپنی کے نمائندوں کو ضرورت سے زیادہ بحث کرنے کی بجائے عدالت میں تعاون کرنا چاہیے تھا، یہ فیصلہ دوسری کمپنیوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔‘

وزارت صحت کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام عدالتیں سخت کارروائی کرنے اور قید کی سزا دینے کا اختیار رکھتی ہیں، اس لیے دوا ساز کمپنیوں کو ڈرگ کورٹس کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔’

Share.

Leave A Reply